Book Name:Muaf Karny K Fazail

روزانہ ستّر(70) بار۔(ترمذی،کتاب البر ولصلۃ ،باب ما جاء فی العفو عن الخادم،۳/۳۸۱،حدیث:۱۹۵۶)

حکیمُ الاُمَّت حضرت مفتی اَحمد یار خان رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ اِس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں: عَرَبی میں سَتّر (70) (Seventy)کا لَفْظ بیانِ زِیادَتی کے لیے ہوتا ہے یعنی ہر دن اُسے بہت دفعہ مُعافی دو، یہ اُس صورت میں ہو کہ غلام سے خطاءًغَلَطی ہوجاتی ہے ،خباثتِ نَفْس سے نہ ہو اور قُصور بھی مالِک کا ذاتی ہو،شریعت کا یاقومی و مُلکی قُصور نہ ہو کہ یہ قُصورمُعاف نہیں کیے جاتے ۔(مرآۃ المناجیح،۵/۱۷۰)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                          صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!آپ نے سُنا کہ لوگوں کو مُعاف کرنا کس قدر بہترین عمل ہے جس  کی دُنیا میں تو بَرَکتیں نصیب ہوتی ہی ہیں مگر آخرت میں بھی اِنْ شَآءَ اللہ اِس کی بَرَکت سے جنّت کی خوشخبری سے نوازا جائے گا۔ کتنے خوش قسمت ہیں وہ مسلمان جو طاقت و قدرت کے باوجود بھی لوگوں کی خطاؤں کو اپنی نفسانی ضِد کا مَسْئَلَہ نہیں بناتے بلکہ مُعاف کرکے ثواب کا خزانہ پاتے ہیں۔مگر افسوس!آج اگر ہمیں کوئی معمولی سی تکلیف بھی پہنچادے،یا ذرا سی بداَخْلاقی کا مظاہرہ کرے تو ہم عَفْو و دَرْگُزر کا دامن ہاتھوں سے چھوڑدیتے ،اُس کے دُشمن بن جاتے اور مختلف طریقوں سے اُس سے بدلہ لینے کی کوشش کرتے ہیں،حالانکہ اگر ہم رحمتِ کونین، نانائے حَسَنَیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پاکیزہ سیرت کا مطالَعہ کریں تو ہم پر روزِ روشن کی طرح واضح ہوجائے گا کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ بُرائی کا بدلہ بُرائی سے نہیں دیتے تھے بلکہ مُعاف فرمادیا کرتے تھے،چنانچہ

شانِ مُصطَفٰے

اُمُّ الْمؤمنین حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صِدّیقہرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں،رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نہ تو عادَۃً بُری باتیں کرتے تھے اورنہ تَکَلُّفاً،نہ بازاروں میں شورکرنے والے تھے اورنہ ہی بُرائی کا بدلہ بُرائی سے دیتے تھے بلکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ مُعاف کرتے اور دَرگُزر فرمایا کرتے تھے۔( تِرمِذی،