Book Name:Dunya Ne Hame Kiya Diya ?

(وسائلِ بخشش مُرَمَّمْ،ص۷۱۱)

  صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                               صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

میٹھی میٹھی اسلامی بہنو! بیان کردہ لرزہ خیز حکایت میں دنیا سے مَحَبَّت کرنے والوں کیلئے نصیحت و عبرت کے کئی مدنی پُھول مَوْجُود   ہیں۔ جسے دیکھو وہ دنیا کے پیچھے آنکھیں بند کئے دوڑا  چلا جارہا ہے،کثیردولت،کئی جائیدادیں، زمینیں، فیکٹریاں، ہوٹل، پیٹرول پمپس،شاپنگ مالز،مارکیٹیں،پلازے،بنگلے اور عالیشان گاڑیاں ہونے کے بعد  انسان کی حرص (Greed)  ختم ہونے کا نام نہیں  لیتی، ہم غورکریں کہ  کہیں ہم دنیا سے مَحَبَّت کرنے والوں  کے عبرت ناک انجام سے غافل تو نہیں ہو گئیں ؟،کیا ہمیں ہمیشہ اس دُنیا میں رہنا ہے؟کیا ہمیں مغفرت کا پروانہ مل چکا ہے؟کیا ہم پچھلی اُمَّتوں پر آنے والے عذابات کو بُھول  گئیں ؟کیا ہمیں روزانہ اُٹھتے جنازوں سے عبرت حاصل نہیں ہوتی، کیا  ہم بسترِ علالت پر سسکتے مریضوں سے سبق حاصل نہیں کر تیں؟کیا ہم نزع کی سختیاں سہہ سکیں  گی؟کیا ہم تنگ و تاریک قبر کو بُھول  چکی ہیں ؟کیا ہم نے قبر کے سانپ بچھوؤں اور کیڑے مکوڑوں سے نجات کا سامان کرلیا؟کیاہم مُنکرنکیر کےسوالات کےجوابات دینے میں  کامیاب ہوجائیں  گی ؟کیا قیامت کے دن ہم سے حساب  وکتاب نہیں ہو گا؟بہرحال عافیت اسی میں ہے کہ ہم  نے جتنا دنیا میں رہنا ہے اُتنا دنیا کیلئے اور جتنا عرصہ  قبر وآخرت کا ہے اُتنی قبر وآخرت کی تیاری میں مشغول رہیں ،کئی ہنستے بولتے انسان اچانک موت کا شکار ہوکر دیکھتے ہی دیکھتے اندھیری قبر میں پہنچ جاتے ہیں اِسی طرح ہمیں بھی مرنا پڑے گا، اَندھیری قبر میں اُترنا پڑے گا اور اپنی کرنی کا پھل بُھگتنا پڑے گا۔

دولت دنیا کے پیچھے تو نہ جا       آخرت میں مال کا ہے کام کیا؟

مالِ دنیا دوجہاں میں ہے وبال      کام آئے گا نہ پیش ذوالجلال