Book Name:Aey Kash Fuzol Goi Ki Adat Nikal Jay

يارَبّ ! نہ ضرورت کے سوا کبھی کچھ بولوں

اللہ  زَباں      کا      ہو      عطا     قُفلِ   مدينہ

                                                (وسائل بخشش مرمم ، ۹۳)

صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

      میٹھی میٹھی اسلامی بہنو!یاد رکھئے! فضول گفتگو ہر طرح سےقابلِ مذمت ہے۔اس بارے میں امام غزالی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں : اس میں بے فائدہ کلام بھی شامل ہے اور وہ کلام بھی جو مفید  تو ہو لیکن حاجت سے زائد ہوکیونکہ مُفید  کام  کو مختصر  گفتگو کے ذریعے بھی ذکر کرنا ممکن ہے اور بڑھا چڑھا کر اور تکرار کے ساتھ بھی ذکر کرنا ممکن ہے۔جب ایک کَلِمہ کے ذریعے اپنے مقصود کو ادا کر سکتا ہے لیکن اس  کے باوجود دو کلمے کہتا ہے تو دوسراکلمہ فضول یعنی حاجت سے زائد ہوگااور یہ بھی مذموم ہے۔ (احیاء العلوم ، ۳/۱۴۱)لہٰذا  زبان کی حفاظت کرنے کیلئے فضول باتوں سے بچنا بے حد ضروری ہے  ہمارے بزرگانِ دِین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن  کی ہرہر ساعت ذِکْرُ اللہ میں بسر ہوتی تھی مگر پھر بھی وہ نیک لوگ  زبان کی کس قدر حفاظت کیا کرتے تھے ،آیئے! اس بارے میں ان  ہستیوں کے مُبارک اقوال سُنئے ، چُنانچہ

کہیں یہ فُضول  کلام نہ ہو:

٭امیر المؤمنین حضرت سَیِّدُنا ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ گفتگو سے بچنے کے لئے اپنے مُنہ میں کنکری رکھا کرتےاور اپنی زبان کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کرتے:یہی وہ چیز ہے جومجھے ہلاکت کی جگہوں پرلے گئی ہے۔

٭ایک صحابیرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہارشادفرماتے ہیں:ایک شخص مجھ سے کوئی بات کرتا ہے تو اس کا جواب