Book Name:Aey Kash Fuzol Goi Ki Adat Nikal Jay

دینا مجھےاتنا زیادہ مرغوب و پسندیدہ ہوتاہے جتنا ایک پیاسے شخص کو ٹھنڈاپانی بھی نہیں ہو تا لیکن میں اس خوف سے اس کا جواب نہیں دیتا کہ کہیں یہ فضول کلام نہ ہو۔ (احیاءالعلوم ،۳/ ۳۴۸)

٭حضرت سیِّدُناموسٰی بن علی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: بنی اسرائیل کے ایک راہِب (یعنی دنیاسے الگ تھلگ عبادت میں مشغول شخص)  کاقول ہے کہ عورت کی زینت شرم وحیا اورعقل مندکی زینت خاموشی ہے۔ (ایک چپ سو سکھ،ص۱۶)

٭حضرت سیِّدُنا رُبَیع بن خَیْثَم رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  نے بیس سال  تک دُنیاوی گفتگو نہیں کی ۔ جب صبح ہوتی تو دَوات ،کاغذ اور قلم رکھتے اور جو گفتگو بھی کرتے اسے لکھ لیتے پھر شام کے وقت اپنے نفس کا مُحاسبہ کرتے۔ (احیاء العلوم،۳/۳۳۸)

میٹھی میٹھی اسلامی بہنو!سُنا آپ نے کہ ہمارے بُزرگانِ دین  کے نزدیک زبان کی کس قدر اہمیت  تھی  کہ یہ نیک  لوگ ہر گھڑی ذکرودُرُود میں بسرکرنے کے باوجود بھی   فضول گفتگو سے بچنے کیلئے  مُنہ میں پتھر  (Stone)رکھا کرتے تھے اورکوئی بات کرتے تو اسے لکھ لیا کرتے  اور  شام کو  اس کے بارے میں غور وفکر  کرتے  تھے ۔فی زمانہ اس کی جھلک ہمارے شیخ ِطریقت ،امیر اہلسنَّت  دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ  میں نظر آتی ہے، آپ دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ   نہ صرف خود  ان بزرگوں کی تعلیمات پرعمل کرنے والے  ہیں بلکہ آپ کے فیضِ تربیت سے   لاکھوں  لوگ بھی راہِ ہدایت پر گامزن ہوچکے ہیں ۔  شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنَّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے ہمیں  زبان کی حفاظت کے بارے میں  کئی  مَدنی اِنعامات عطا فرمائے ہیں:مثلاً ایک مدنی انعام میں فرماتے  ہیں :آج آپ نے کسی سے ایسے فُضول سوالات تو نہیں کئے جن کے ذَریعے مُسلمان عموماً جُھوٹ کے گناہ