Book Name:Aey Kash Fuzol Goi Ki Adat Nikal Jay

کوشش کرو کہ واقعہ  بیان کرنے میں کوئی کمی بیشی نہ ہو جا ئے اور نہ  اس میں کسی کی غیبت اور نہ مخلوقِ خُدا کی مَذمَّت  ہو،ان ساری احتیاطوں کے باوجود بھی تم اپناوقت برباد کرنے والے ہوگے۔اور فضول گفتگو کی  آفات سے کیسے بچ سکو گے۔(احیاء العلوم،۳/۳۴۵ ،ملتقطاً)

میٹھی میٹھی اسلامی بہنو!سُنا آپ نے کہ بے فائدہ کلام سے مُراد یہ ہے کہ جس  کے نہ کرنے سے کوئی نقصان نہ ہو ،بس ہمیں  بات کرنے سے پہلے اس کے نتیجے پر غور کرلینا چاہیے  کہ اس سے میری آخرت کا کوئی فائدہ  ہے  یانہیں اگر فائدہ ہوتو کی جائے ورنہ خاموشی اختیار کی جائے۔ ہمارے ذہنوں  میں اگر  فضول  اور بے ہودہ گفتگو کے سبب بروزِ محشر  رُسوائی کا تصور ہوگا تو ہم کم گفتگو کرنے والی اور فُضُول گفتگوسے بچنے والی بن جائیں گی کیونکہ جسے کوئی دُنیاوی فکرلاحق ہوتی ہے تو اس کا دل اسی کی طرف لگا رہے گا ، مثلاً  کسی کے ماں باپ  یا رشتہ دار کا اچانک انتقال (Death) ہوجائے ،یا چلتا ہوا کاروبار اچانک  کسی حادثے کا شکار ہوجائے ، بات بات پر گھریلوجھگڑے شروع ہوجائیں  تو بندے پرخاموشی طاری ہوجاتی ہے ،اسی طرح اگر ہمیں  جہنم کے عذابات   کا تذکرہ سن کر فکرِ آخرت نصیب ہوجائے، خوفِ خدا سے ہمارا  دل لرزجائے  تو اِنْ شَآءَ اللہعَزَّ  وَجَلَّ ہمارے لبوں پر  بھی خاموشی طاری ہوجائے گی ۔ مگر ہم تو کسی پل خاموش نہیں رہتی ،ہروقت بغیر سوچے سمجھے  بولے چلی جاتی ہیں ۔ اگر ہم اپنےپیارے آقا مَدَنی مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرتِ مُبارَکہ  کا مُطالعہ کریں تو  معلوم ہوگا کہ ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ بہت   کم گفتگو فرمایا کرتے تھے اکثر خاموش رہا کرتے  تھےجیساکہ حضرت سیِّدُنا جابر بن سَمُرَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ رسولِ پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ  بہت زیادہ خاموش رہا کرتے تھے۔(مسندامام احمد،مسندالبصریین،حدیث جابربن سمرۃ،۷/ ۴۰۴، حدیث:۲۰۸۳۶ملتقطا)