Book Name:Qaroon Ki Halakat Ka Sabab

ہوگیا۔ (تفسیر صاوی،پ۲۰، القصص،تحت الآیۃ:۸۱، ۴/۱۵۴۶ملخصًا )

جہاں میں ہیں عبرت کے ہر سُو  نمونے          مگر  تجھ  کو  اندھا  کیا رنگ و بُو نے

کبھی  غور سے بھی یہ دیکھا  ہےتُو نے     جو آبادتھے وہ محل اب ہیں سُونے

جگہ   جی   لگانے  کی  دنیا نہیں   ہے     یہ عبرت  کی جا ہے  تماشا  نہیں ہے

                                                                                                               صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                          صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

     میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!معلوم ہواکہ دنیوی خوشحالی(Prosperity)،مال ودولت اورسہولیات کی کثرت  اللہ عَزَّوَجَلَّ کے راضی ہونے کی علامت نہیں،اگر ایسا ہوتا تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کی بارگاہ میں   قارون  کابہت بڑا  مرتبہ ہوتا،یہ بھی معلوم ہوا کہ مال و دولت کی حرص میں مبُتلا  ہوکرانسان اپنی آخرت بربادکرلیتا اور ربعَزَّوَجَلَّکی ناراضی مول لیتا ہے  بالآخر عذابِِ الٰہی کے سبب دنیا میں  لوگوں کیلئے عبرت کا نمونہ بن جاتاہے۔یادرکھئے! مال و دولت اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی ایک نعمت ہےلیکن اس نعمت کاصحیح استعمالاللہعَزَّ  وَجَلَّکی رِضا والےکاموں میں خرچ کرنااوراس کی زکوٰۃ ادا کرنا ہے، اس کے ساتھ ساتھ حقیقی دولت(تقویٰ، پرہیز گاری،خوفِ خدااورعشقِ مصطفی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ   )کی بھیک مانگتےرہنا چاہیےکیونکہ دولت و حکومت کا ہونا فضیلت کاباعث نہیں،فرعون، نمرود اورقارون بھی تو دولت وحکومت والےتھےمگران کے مال نے  انہیں ابدی لعنت  کا مستحق بنایا، بلکہ فضیلت تو اس میں ہے  کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  ہم سے راضی ہوجائے، تقویٰ وپرہیز گاری مل جائے اوراگردولت ملےتو ایسی جوحضرت سَیِّدُنا عثمانِ غنی اورحضرت سَیِّدُنا عبدالرحمن بن عوف اور دیگر صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کےپاس تھی،وہ حضرات اس مال کے حُقُوق اداکرتے یعنی زکوٰۃ دیتے اور  زکوٰۃ کے علاوہ بھی  اسلام کے نام پرخوب  صدقہ وخیرات کرتے  تھے۔اللہ عَزَّوَجَلَّ  ہمیں  مال کی مَحَبَّت کے سبب اس کے  وبال سے بچائے اورہر سال اس کی  زکوٰۃ اداکرنے کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ مال کی زکوٰۃ اداکرنا فرض  ہے ،جبکہ کنجوسی اورتنگ دلی سے کام لیتے ہوئے اسے جمع رکھنااور اس کی زکوٰۃ  ادانہ  کرنا آخرت میں  پکڑ اور