Book Name:Ghous-e-Pak Ka Ilmi Martaba

چور حاکم سے چھُپا کرتے ہیں یاں اس کے خلاف      تیرے دامن میں چُھپے چور انوکھا تیرا

بد سہی چور سہی مجرم و ناکارہ سہی             اے وہ کیسا ہی سہی ہے تو کریما تیرا

تُو جو چاہے تو ابھی میل مرے دل کے دُھلیں  کہ خُدا دل نہیں کرتا کبھی میلا تیرا

(حدائقِ بخشش،ص ۱۶ تا ۲۲)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

دِلوایئے جنّت

غوثِ پاک

دو بدیوں سے نفرت

غوثِ پاک

دوشوقِ عبادت

غوثِ پاک

سرکار کی اُلفت

غوثِ پاک

٭مرحبا یا غوثِ پاک٭مرحبا یا غوثِ پاک٭مرحبا یا غوثِ پاک

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!بیان کردہ حکایت سے پتا چلا کہ ہمارےسرکارِ بغداد،حُضُور غوثِ پاک  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہ   کو عِلْمِ دین حاصل کرنے کا اِس قدر شوق تھا کہ اِس کی خاطر آپ  نے نہ صرف گھر بار کو خیر باد کہہ کر دُور دراز کا سفر اختیار فرمایا بلکہ اپنی شفیق والدہ کی جُدائی بھی گوارا فرمائی۔ آپ کی والدہ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہَا کی قربانی بھی صد مَرحبا! کہ نہ صرف اپنے لختِ جگر کی جُدائی کے غم کو نظر انداز کرتے ہوئے اُنہیں عِلْمِ دین حاصل کرنے کہ اجازت عطا فرمادی بلکہ اپنے شہزادے کو  حُصولِ علم اور خدمتِ علم کے لئے ایسا وقف کِیا کہ سفر پر رُخصت کرتے ہوئے واضح طور پر فرما دیا :یَا وَلَدِیْ اِذْہَبْ  فَقَدْ خَرَجْتُ عَنْکَ لِلّٰہِ فَہٰذَا وَجْہٌ لَااَرَاہُ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ یعنی اے میرے پیارے بیٹے جاؤ! میں اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کی رضا کے لئے تم سے جُدائی اختیار کرتی ہوں ،لہٰذا اب قیامت تک تمہارا یہ چہرہ نہ دیکھوں گی۔

     غوثِ پاک،شہنشاہِ بغداد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہ کی والدۂ ماجدہ نے غوثِ پاک کونہ صرف سفر کی اجازت دی بلکہ خرچ بھی دِیا،یہاں وہ عاشقانِ رسول اور عاشقانِ غوثِ اعظم غورفرمائیں کہ جو دُنیوی تعلیم اورکاروبار کے لیے تواولاد کو مال و دولت دیتے ہیں،لیکن دِینی تعلیم میں مدد نہیں کرتے۔