Book Name:Ghous-e-Pak Ka Ilmi Martaba

میں سوالات کئے ،انہی میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ حُضُور! آپ نے اپنے معاملات کی بُنیاد کس چیز پر رکھی ہے؟آپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہ  نے ارشاد فرمایا: کہ میں نے اپنے معاملات کی بُنیاد صِد ق و سچّائی پر رکھی ہے، میں نے کبھی بھی جُھوٹ اور غلط بیانی سے کام نہ لیا، بچپن میں جب میں مدرسے میں پڑھا کرتا تھا،اُس وقت بھی کبھی جُھوٹ نہیں بولا،پھر فرمانے لگے :میں ایک دن حج کےدنوں میں جنگل کی طرف گیا ، میں ایک بیل(Bull) کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا کہ اچانک اُس بیل (Bull) نے میری طرف دیکھ کر کہا: یَاعَبْدَالْقَادِرِمَالِھٰذَاخُلِقْتَ یعنی اے عبدُالقادر!تمہیں اس قسم کے کاموں کیلئے تو پیدا نہیں کِیا گیا، میں گھبرا کر گھر آیا اور اپنے گھر کی چھت پر چڑھ گیا ،کیا دیکھتاہوں کہ میدانِ عرفات میں لوگ کھڑے ہیں،اس کے بعد میں نے اپنی والدہ ٔماجدہ کی خدمت میں حاضر ہو کرعرض کِیا،آپ مجھے راہ ِخداعَزَّ  وَجَلَّ کیلئے  وَقْف فرمادیں اور مجھے بغدادجانے کی اجازت مرحمت فرمادیں تاکہ میں وہاں جاکر عِلْمِ دین حاصل کروں،والدہ ماجدہرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہَا نے مجھ سے اِس کا سبب دریافت کِیا تومیں نے بیل(Bull) والا واقعہ عرض کردیا ،اِس پر اُن کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ 80 دِینار جو میرے والدِ ماجد کی وراثت تھے میرے پاس لے آئیں ،میں نے اُن میں سے 40 دِینار لےلئے اور 40دِینار اپنے بھائی سَیِّد ابو احمد جیلانی کیلئے چھوڑ دیئے،والدۂ ماجدہ نے میرے چالیس (40)دِینار میری گُدڑی(یعنی بہت سے پیوند لگے ہوئے مخصوص قسم کے  جُبّے)میں سی دیئے اور مجھے بغداد جانے کی اجازت عنایت فرما دی اور مجھے ہر حال میں سچ بولنے کی تاکید فرمائی اورجِیلان کے باہر تک مجھے چھوڑ نے کیلئے تشریف لائیں اورفرمایا: یَا وَلَدِیْ اِذْہَبْ  فَقَدْ خَرَجْتُ عَنْکَ لِلّٰہِ فَہٰذَا وَجْہٌ لَااَرَاہُ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ یعنی اے میرے پیارے بیٹے،جاؤ !اللہ     عَزَّ  وَجَلَّ کی رضا اورخُوشنودی کی خاطر میں تمہیں اپنے پاس سے جُدا کرتی ہوں اور اب مجھے تمہارا چہرہ قیامت میں ہی دیکھنا نصیب ہوگا۔ پھر میں بغداد جانے والے ایک چھوٹے قافلے کے ساتھ روانہ ہوگیا،جب ہم لوگ ہمدان سے آگے بڑھے تو ساٹھ (60) گھوڑے سوار ڈاکوؤں