Book Name:Ghous-e-Pak Ka Ilmi Martaba

سے رہنمائی لی جاتی ہے، ان کے نقشِ قدم پر چلا جاتا ہے، ان کے اعمال و افعال کی اقتدا کی جاتی ہے، ان کی رائے حرفِ آخر ہوتی ہے، فرشتے ان کی دوستی کو مرغوب جانتے ہیں اور انہیں اپنے پروں سے چھُوتے ہیں، ہر خشک و تر شے یہاں تک کہ سمندر کی مچھلیاں،کِیڑے مکوڑے، خشکی کے درندے اور جانور، آسمان اور ستارے سب ان کی مغفرت چاہتے ہیں۔ اس لئے کہ علم اندھے دلوں کی زندگی، تاریک آنکھوں کا نُور اور کمزور بدنوں کی قوّت ہے۔ بندہ اس کے سبب نیک لوگوں کے مراتب اور بلند درجات تک جا پہنچتا ہے۔ علم میں غوروفکر کرنا روزے رکھنے کے برابر اور اسے پڑھانا، رات کے قیام کے برابر  ہے۔ علم کے ذریعے ہی اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کی عبادت و فرمانبرداری ہوتی ہے، اسی سے توحید اور وَرَعْ و تقویٰ ملتا ہے، اسی کے سبب صِلۂ رحمی کی جاتی ہے، علم امام ہے اور عمل اس کا تابع۔ علم نیک بخت لوگوں کے دلوں میں ڈالا جاتا ہے، جبکہ بدبختوں کو اس سے محروم رکھا جاتا ہے۔([1])

1.     جو شخص علم کی طلب میں کسی راستہ پرچلے،اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دے گا۔([2])

2.     جو شخص طلبِ علم کے لیے گھر سے نکلا تو جب تک واپس نہ ہو، اللہ عَزَّ وَجَلَّکی راہ میں ہے۔([3])

3.    اللہ عَزَّ  وَجَلَّ   جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتاہے، اُسے دِین کی سمجھ عطا فرماتاہے۔([4])

4.    جب انسان فوت ہوجاتا ہے تو اس کے اعمال منقطع ہو جاتے ہیں، سوائے تین(3) کے (1)صدقَۂ جاریہ (2) ایسا علم جس سے فائدہ اُٹھایا جائے(3) نیک اولاد جو اس کے لیےدُعا کرتی ہے۔([5])

فقدانِ علم کا نُقصان


 

 



[1]جامع بیان العلم و فضلہ، باب جامع فی فضل العلم، ص۷۷، حدیث: ۲۴۰، بتغیر

[2]مسلم،کتاب الذکر والدعاء... الخ،باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن...الخ، ص۱۴۴۷ حدیث: ۲۶۹۹

[3]ترمذی، کتاب العلم، باب فضل طلب العلم،۴/ ۲۹۴، حدیث:۲۶۵۶

[4]بخاری، کتاب العلم، باب من یرد اللّٰه به خيراً...الخ ،۱/ ۴۲، حدیث:۷۱

[5] مسلم،کتاب الوصیة،باب ما یلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہ، ص ۸۸۶، حدیث:۱۶۳۱