Book Name:Ghous-e-Pak Ka Ilmi Martaba

حاصل کرنےکیلئے کس قدرمصائب وتکالیف اورفاقےبرداشت کئے اور اِس عالَم میں بھی آپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہ  نے  تقویٰ و پرہیز گاری،صبراور ایثار کا دامن نہ چھوڑا بلکہ اگر کہیں سے کچھ کھانے کو مل بھی جاتا تو جذبۂ ہمدردی  اور خیر خواہی کے پیشِ نظر دُوسروں پر ایثار کر دِیا کرتے اور خُود صبر سے کام لیتے۔ عِلْمِ دین کی راہ میں حُضُور غوثِ پاک  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہ  کو کس قدرمصیبتوں اور تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا ،اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ شیخ  عبدُ اللہنجّاررَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں کہ مجھےحُضُور غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہ  نے بذاتِ خود بتایا ہے کہ مجھ پر ایسی ایسی مصیبتیں بھی آن پڑتی تھیں کہ اگر وہ مصیبتیں پہاڑوں پر نازل ہوتیں تو پہاڑ بھی ریزہ ریزہ ہوکر بکھر جاتے،جب اُن مصیبتوں کی کثرت میری قوّتِ  برداشت سے باہر ہوجاتی تو میں زمین پر لیٹ  جاتا اور یہ آیاتِ مُبارَکہ تلاوت كرتا:

فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًاۙ(۵)اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًاؕ(۶) (پ ۳۰،الم نشرح:۵،۶)

 تَرْجَمَۂ کنز الایمان:تو بے شک دُشواری کے ساتھ آسانی ہے بے شک دُشواری کے ساتھ اَور آسانی ہے۔

اور جب اِن آیات کی تلاوت کے بعد سراُٹھاتا  تو ساری تکلیفیں  دُور ہو جاتیں  اور مجھے سکون و اطمینان  محسوس ہوتا۔([1])

شوقِ عِلْمِ دین  

حضرتِ سَیِّدُنا شَیْخ عَبْدُ الْقادِر جِیْلانی   رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہ  کے عِلْمِ دین حاصِل کرنے کا انداز بڑا نِرالا تھا، آپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہ  فرماتے ہیں :میں اپنے طالِبِ عِلْمی کے زمانے میں اَسَاتِذہ سے سبق لے کر جنگل کی طرف نکل جایا کرتا تھا، پھر بَیابانوں اور وِیرانوں میں دن ہو یا رات ،آندھی ہو یا مُوسْلادھار بارش، گرمی ہو یا سردی اپنا مُطالَعہ جاری رکھتا تھا، اُس وقت میں اپنے سر پر ایک چھوٹا سا عِمامہ باندھتا اور معمولی تَرکاریاں کھا کرپیٹ کی آگ بُجھایا کرتا،کبھی کبھی یہ تَرکاریاں بھی ہاتھ نہ آتیں، کیونکہ بُھوک کے مارے ہوئے


 



[1]قلائد الجواہر  ص۰  ۱