Book Name:Ghous-e-Pak Ka Ilmi Martaba

مِرے جس قَدَر ہیں اَحباب اُنہیں کردیں شاہ بیتاب  ملے عِشق کا خَزانہ مَدنی مدینے والے

مِری آنیوالی نسلیں ترے عشق ہی میں مچلیں    اُنہیں نیک تُو بنانا مَدنی مدینے والے

 (وسائلِ بخشش ، ص۴۲۹)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                 صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

      میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! بغداد پہنچ کر حُضُور غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہ  نے وقت کے معروف و مشہور اور انتہائی ماہر اُستادوں سے عِلْمِ دین حاصل کِیا،آپ   رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہ  کو عِلْمِ دین سے اس قدر محبت تھی کہ آپ نے فاقہ کشی اور تکالیف برداشت کرکے بھی علم حاصل کِیا، آئیے! اسی مناسبت سے آپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہ  کی عِلْمِ دین سے محبت اور اس کی راہ میں آنے والی مشکلات پر صبر کے بارے میں سنتے ہیں۔چُنانچہ     

فاقہ کشی اور صبر

    حضرت سَیِّدُنا ابو بکرتمیمیرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ بیان کرتے ہیں  کہ حُضُورغوثِ پاک  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہ  خُود فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ  بغداد  میں قحط ہوگیا ،جس کی وجہ سے مجھے بہت تنگدستی اورمصائب کا سامنا کرنا پڑا اور کئی روز تک مجھےکھانے کے لئے کچھ نہ مِلا۔ ایک دن بھوک کی شِدّت کی وجہ سے میں دریائے دِجْلَہ کی طرف گیا تاکہ وہاں  ساگ یا کسی سبزی کے پتّے کھا سکوں، مگر جہاں جاتا وہاں مجھ سے پہلے کئی فقراء موجود ہوتے اور اگر کوئی چیز اُن کو ملتی تو اُس پر سب کا ہجوم ہوتا،  میں نے اُن سے مزاحمت کرنا پسند نہیں کِیا اور اسی حالت میں شہر لوٹ آیا  کہ وہاں کوئی چیز تلاش  کروں،لیکن وہاں بھی کچھ نہیں مِلا،بالآخر میں بھوک سےنڈھال ہوکرمسجد کےایک گوشے میں بیٹھ گیا،ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ایک عجمی(یعنی غیرِ عربی) نوجوان روٹی اور بُھنا ہوا گوشت لے کر مسجد میں داخل ہوا اورکھانا کھانے لگا ،آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہ  فرماتے  ہیں کہ اس کے ہر لقمہ پر بھوک کی شِدّت سے میرا مُنہ کھل جاتا ، لیکن میں نے اپنے نفس کو اس حرکت پر ملامت کی، اتنے میں اس نے میری طرف دیکھا اورکھانا لا کر مجھے پیش کِیا،اُس نے مجھ سے پوچھاکہ آپ کہاں کے رہنے والے ہیں اورکیا کرتے ہیں؟ میں نے بتایا کہ جِیلان میں رہتا ہوں اوریہاں علمِ دین  حاصل