Book Name:Aala Hazrat ka Ishq e rasool

یہ غزل عَرْض کرکے دِیدار کے اِنتظار میں مُؤدَّب(یعنی بااَدَب)بیٹھے ہوئے تھے کہ قسمت انگڑائی لیکر جاگ اُٹھی اور چشمانِ سر(یعنی سر کی آنکھوں ) سے بیداری میں زیارتِ محبوبِ باری سے مُشرَّف ہوئے۔([1])

آنکھ محوِ جلوۂ دیدار دل پُر جوشِ وجد

لب پہ شکرِ بخشِشِ ساقی پیالی ہاتھ میں

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                         صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے  عِشْقِ رسول  کو اپنی زندگی کا سرمایَہ اور ذکرِ رسول کو گویا اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا تھا،ساری عُمْر اپنے محبوب آقا، مکی مدنی مُصْطَفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شانِ عظمت میں نعتیں لکھ لکھ کر لوگوں کو عِشْقِ رسول میں گرماتے رہے اور اُن کے دِل میں عِشْقِ حبیب کے دِیے جلاتے رہے،نیز اپنی زبان و قلم کے ذریعے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عزّت و نامُوس کی حفاظت کرتے رہے،چونکہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ عاشِقِ صادِق تھے، لہٰذا دِیارِ حبیب کی حاضری کا شوق سینے میں موجیں مارتا رہا اور جب آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کو اپنے کریم آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دربار میں حاضری کی سعادت ملی تو پیارے آقا،مکی مدنی مُصْطَفٰے  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شانِ عظمت میں دل کی گہرائیوں سے نکلے ہوئے اور عِشْقِ مُصْطَفٰے  میں ڈُوبے ہوئے اَشعار،اُس پاک بارگاہ میں پیش کردئیے۔رِقّت و سوز سے بھرپور اَشْعار کو دَرَجَۂ قبولیّت حاصل ہوا،غیب دان آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی رحمت کو جوش آیا اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے دِیدار کا شربت پِلا کر گویا،اعلیٰ حضرت کے عاشِقِ صادق ہونے پر اپنی مُہر لگادی ۔

جو ہے اللہ کا ولی بے شک

عاشقِ صادِقِ نبی بے شک


 

 



[1]تذکرۂ امام احمد رضا،ص۱۳ملخصاً