ننھے میاں  کی کہانی

گاؤں کی سیر (قسط : 02)

* مولانا حیدر علی مدنی

ماہنامہ جنوری2022

گاڑی گاؤں میں داخل ہو چکی تھی اور آہستہ آہستہ سرسبز کھیتوں کے درمیان بنی کچی سڑک پر چل رہی تھی ، دونوں طرف دور دور تک کھیت اور باغات ہی دکھائی دے رہے تھے ، کہیں کہیں کھیتوں میں بکریاں اور کسان بھی گھومتے نظر آ رہے تھے اور کھیتوں کے درمیان دیہاتی طرز کی بنی مسجد سے اذانِ عصر کی آواز بلند ہو رہی تھی۔ ننھے میاں انہی خوشنما مناظر میں گم تھے۔ گاؤں میں داخل ہونے کے بعد جیسے ہی دوسرا موڑ آیا تو امی جان بولیں : ننھے میاں ادھر دیکھو! ننھے میاں نے فوراً گردن گھما کر بائیں طرف دیکھا تو ایک بڑے سے درخت کے نیچے چھوٹی سی مسجد بنی ہوئی تھی ، دیواریں اتنی چھوٹی تھیں کہ ننھے میاں بھی آرام سے پھلانگ کر اندر جا سکتے تھے ، پاس ہی ہاتھ سے پانی نکالنے والا نلکا لگا ہوا تھا ، امی جان بولیں : یہ اس گاؤں کی سب سے پہلی مسجد تھی جو آپ کے نانا ابّو نے بنائی تھی۔

ننھے میاں : لیکن اتنی سی مسجد میں سارے لوگ کیسے نماز پڑھتے ہوں گے؟

امّی جان : بیٹا تب اس گاؤں میں صرف دس کے قریب گھر تھے اور وہ  سب بھی آپس میں   قریبی رشتے دار تھے۔

ننھے میاں امی جان سے باتوں میں مگن تھے  کہ ماموں جان نے گاڑی روکتے ہوئے کہا : لو جی ہمارا گھر آ گیا ، دروازے کے باہر لگی بیل نے دروازے کے سامنے سائبان سا بنا دیا تھا۔ ننھے میاں امی جان کا ہاتھ پکڑے اندر پہنچے تو بڑے سے صحن میں  چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں جن پر نانی اماں ، ممانیاں اور بچے بیٹھےانہیں کا انتظار کر رہے تھے ، نانی اماں نے ننھے میاں کا ماتھا چوما اور  پھر سینے سے  لگاتے ہوئے بولیں : ننھے میاں تو ما شآءَ اللہ بڑے ہو گئےہیں۔

پہلا دن تو ننھے میاں کا سب سے ملنے ملانے میں گزر گیا ، سب سے پہلا گھر بڑے ماموں جان کا تھاجہاں نانی اماں بھی رہتی تھیں ، پھر اس کے بعد چھوٹے ماموں جان کا گھر تھا جبکہ بچے دونوں گھروں میں ہی رہتے تھے سارا دن تو کھیل کود میں گزر جاتا اور رات ہوتے ہی تھکاوٹ سے جسے جہاں نیند آتی وہیں سو جاتا ، ایک گھر سے دوسرے گھر میں اندرونی آمد و رفت کے لئے دروازہ بھی رکھا ہوا تھا۔ رات ہونے تک سب ایک دوسرے سے گُھل مِل گئے تھے تبھی امّی جان نے عشاکے بعد پوچھا کہ کہاں سوئیں گے؟ تو ننھےمیاں بولے : میں اپنے بھائیوں کے ساتھ ہی سوؤں گا میری فکر مت کریں۔

اگلی صبح ننھے میاں سب کے ساتھ فجر کی نماز پڑھ کر آئے تو مامی جان لسّی بنا چکی تھیں ، سب بچوں کو لسّی پلا کر پڑوس میں خالہ زبیدہ کے گھر بھیج دیا گیا جہاں بچے روزانہ فجر کے بعد قراٰنِ پاک پڑھتے تھے ، گاؤں کا شاید ہی کوئی بچہ یا نوجوان ہوگا جس نے زبیدہ خالہ سے قراٰنِ پاک نہ پڑھا ہو بلکہ گاؤں والوں کے رشتے داروں کے بھی جو بچّے گاؤں رہنے آتے وہ بھی اتنے دن خالہ سے سبق پڑھتے رہتے۔ مٹی کے فرش پر پلاسٹک کی چٹائیاں بچھائی ہوتیں جہاں بچّے آ آکر بیٹھتے جاتے اور اپنی اپنی باری پر سبق سُنا کر چھٹی کرتے جاتے۔ قراٰنِ پاک پڑھ کر واپس آئے   تو ناشتہ تیار تھا ، سارے بچّوں نے کچن میں ہی فرش پر بچھی دری پر بیٹھ کر ناشتہ کیا ، تبھی چھوٹے ماموں جان نے خوشخبری سنائی : سارے بچّے جلدی سے آجاؤ ، ننھے میاں کو باغ کی سیر کروانی ہے۔

بقیہ اگلی قسط میں

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ


Share

Articles

Comments


Security Code