اللہ والوں کا مدد کرنا، اللہ ہی کا مدد فرمانا ہے

اسلامی عقائد و معلومات

اللہ والوں کامدد کرنا اللہ ہی کا مدد فرمانا ہے ( تیسری اور آخری قسط )

*مولانا عدنان چشتی عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جنوری2023

اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اللہ کریم کے محبوب اور مقبول بندے مدد کرتے ہیں لیکن اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یہ حضرات ذاتی طور پر ، خود بخود ، مستقل مشکل کُشا ہیں ، مَعاذَ اللہ۔ کوئی مسلمان ایسا عقیدہ رکھنا تو دور کی بات ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔مسلمانوں کا عقیدہ تو یہ ہے کہ امداد صرف اور صرف اللہ کریم ہی کی ہے ، اللہ پاک کے محبوب بندے اس مدد کا وسیلہ ، ذریعہ اور سبب ہیں اور اللہ کے نیک بندے جو مدد کرتے ہیں وہ حقیقت میں اللہ ہی کی طرف سے مدد ہوتی ہے۔

جلیلُ القدر فقیہ و محدث ، شیخ الاسلام حضرت امام تقی الدین علی سبکی شافعی  رحمۃُ اللہ علیہ  استمداد و استعانت کو بہت سی احادیثِ صریحہ سے ثابت کرکے ارشاد فرماتے ہیں : نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے مددمانگنے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کو خالق اور فاعل مستقل ٹھہراتے ہوں ، کوئی مسلمان یہ بات ہرگز نہیں سوچ سکتا ، کلام کو اس معنی پر ڈھال کر مدد مانگنے سے روکنا ، دین میں دھوکا دینا اور مسلمانوں کو پریشانی میں ڈالنا ہے۔[1]

ایک اور مقام پر لکھتے ہیں : اَلْمُسْتَغَاثُ بِہٖ فِی الْحَقِیْقَۃِ : ہُوَ اللہ تَعَالٰی ، وَ النَّبِیُّ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم وَاسِطَۃٌ بَیْنَہٗ وَ بَیْنَ الْمُسْتَغِیْث یعنی حقیقی مددگار تو اللہ پاک ہی ہے ، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تو اللہ پاک اور مدد مانگنے والے کے درمیان واسطہ و وسیلہ ہیں۔[2]

اعتراض کرنے والے کو چاہئے کہ مدد مانگنے والوں سے پوچھ کر تو دیکھے کہ  ” تم انبیا ء و اولیاء کو خدا مانتے ہو ، خدا کا ہم پلہ مانتے ہو ، خود سے قدرت رکھنے والا ، ہمیشہ ہمیشہ سے مستقل مددگار سمجھتے ہو یا انہیں اللہ کریم کے مقبول بندے ، اس کی بارگاہ میں عزت ووجاہت والے ، اُسی کے حکم سے اُس کی نعمتیں بانٹنے والے مانتے ہو؟ دیکھو تو تمھیں کیا جواب ملتا ہے۔ “  [3]

استغاثہ ، توسل ، سفارش وغیرہ ایک ہی ہیں :

جب اللہ کے محبوب بندے مدد کا وسیلہ ، واسطہ ، ذریعہ اور سبب ہیں تو اس سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ استغاثہ ، توسل دونوں ایک ہی عمل کے مختلف نام ہیں ، اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت امام سبکی فرماتے ہیں : وَ اِذَا تَحَرَّرْتُ ھَذِہِ الْاَنْوَاعَ وَ الْاَحْوَالَ فِی الطَّالِبِ مِنَ النَّبِیِّ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، وَظَہَرَ الْمَعْنیٰ ، فَلَا عَلَیْکَ فِی تَسْمِیَتِہٖ : تَوَسُّلًا ، اَوْ تَشَفُّعًا ، اَوِاسْتِغَاثَۃً ، اَوْ تَوَجُّھًا ، لِاَنَّ الْمَعْنٰی فِی جَمِیْعِ ذَلِکَ سَوَاءٌ یعنی اور جب میں نے  ( توسل و استغاثہ وغیرہ کی )  تمام اقسام اور رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے  ( مدد )  مانگنے کے تمام احوال لکھ دئیے اور معنی بھی ظاہر ہوگیا توتم پر کوئی حرج نہیں کہ اسے توسل ، سفارش ، استغاثہ اور توجّہ میں سے کوئی بھی نام دے دو کیونکہ ان سب کا ایک ہی مطلب ہے۔[4]

حضرت امام احمد بن حجر مکی شافعی رحمۃُ اللہ علیہ نے بھی توسل ، استغاثہ ، اور شفاعت کے بارے میں یہ نقل فرمایا ہے کہ ان میں فرق نہیں ہے : وَلَا فَرقَ بينَ ذکرِ التَّوَسُّلِ وَالْاِسْتِغَاثَةِ وَالتَّشَفُّعِ وَالتَّوَجُّہِ بِہٖ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اَوْ بِغَیْرِہٖ مِنَ الْاَنْبِیَاءِ وَکَذَا الاَوْلِیَاء یعنی رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، انبیائے کرام اور اولیائے عظام سے توسل ، استغاثہ ، تشفع اور توجہ میں کوئی فرق نہیں۔[5]

اتنی صاف وضاحت کے بعد یہ کہنا سراسر الزام ہے کہ انبیاء و اولیاء سے مدد مانگنے والے ، ان حضرات کو قادر اور مستقل جان کر مدد مانگتے ہیں۔ایسے الزام تراشوں کے بارے میں امامِ اہلِ سنّت اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں :  ( یہ )  ایک ایسی سخت بات ہے جس کی شناعت  ( بُرائی )  پر اطلاع پاؤ تو مدتوں تمہیں توبہ کرنی پڑے ، اہلِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲ پر بدگمانی حرام ، اور ان کے کام کہ جس کے صحیح معنی بے تکلف درست ہوں خواہی نخواہی مَعَاذَاللہ معنی کفر کی طرف ڈھال  ( کر ) لے جانا قطعاً گناہ کبیرہ ہے۔[6]

کیا فوت شدہ سے مدد مانگنا شرک نہیں؟

فوت شدہ سے مدد مانگنا شرک ہے یا نہیں؟اس سوال کا جواب جاننے کے لئے امامِ اہلِ سنّت ، امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ کی عبارت پڑھئے جو کچھ آسان الفاظ میں پیشِ خدمت ہے : اللہ والوں سے مدد مانگنے کے مخالفین بیچارے کم علم لوگوں کو اکثر دھوکا دیتے ہیں کہ یہ تو زندہ ہیں فلاں عقیدہ یا معاملہ اِن سے شرک نہیں ، وہ مُردہ ہیں اُن سے شرک ہے یا یہ تو پاس بیٹھے ہیں اِن سے شرک نہیں ، وہ دور ہیں اُن سے شرک ہے وغیرہ وغیرہ۔ ایسی باتیں کرنا سخت جہالت ہے ، جو شرک ہے وہ جس کے ساتھ کیا جائے شرک ہی ہوگا ، ایک کے لئے شرک نہیں تو کسی کے لئے بھی شرک نہیں ہوسکتا۔ کیا اللہ پاک کے شریک مُردے نہیں ، زندے ہوسکتے ہیں! دور والےنہیں ہوسکتے ، پاس کے ہوسکتے ہیں! انبیاء نہیں ہوسکتے حکیم ہوسکتے ہیں! انسان نہیں ہوسکتے ، فرشتے ہوسکتے ہیں!

حاشالِلّٰہ! اللہ تبارک وتعالیٰ کاکوئی شریک نہیں ہوسکتا ، مثلاً جو بات ، نِدا ، خواہ کوئی شے جس اعتقاد کے ساتھ کسی پاس بیٹھے ہوئے زندہ آدمی سے شرک نہیں وہ اُسی اعتقاد سے کسی دور والے یا مُردے بلکہ اینٹ پتھر سے بھی شرک نہیں ہوسکتی ، اور جو ان میں سے کسی سے شرک ٹھہرے وہ قطعاً یقیناً تمام عالَم سے شرک ہوگی۔

 مزید فرماتے ہیں : مسلمان اس نکتے کو خوب محفوظ ملحوظ رکھیں ، جہاں ان چالاکوں ، عیاروں کو کوئی فرق کرتے دیکھیں کہ فلاں عمل یا فلاں اعتقاد فلاں کے ساتھ شرک ہے فلاں سے نہیں ، یقین جان لیجئے کہ نرے جھوٹے ہیں ، جب ایک جگہ شرک نہیں تو اس اعتقاد سے کسی جگہ شرک نہیں ہوسکتا۔[7]

 انتقال کے بعد بھی مدد مانگنا جائز ہے :

مُحَقِّق عَلَی الِاْطلاق ، شیخ عبدُالحقّ مُحَدِّث دِہلوی حنفی رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں : حضرت امام محمد غزالی رحمۃُ اللہ علیہ نے فرمایا : كُلُّ مَنْ يُّسْتَمَدُّ بِهٖ فِيْ حَيَاتِهٖ يُسْتَمَدُّ بِهٖ بَعْدَ وَفَاتِهٖ ، یعنی جس سے اس کی زندگی میں مدد مانگنا جائز ہے ، اس سے انتقال کے بعد بھی مدد مانگنا جائز ہے۔ مشائخِ عظام میں سے ایک ولی نے فرمایا : میں نے چار اولیاء کو دیکھا ہے کہ وہ اپنی قبروں میں اُسی طرح تصرف کرتے ہیں جس طرح اپنی زندگی میں کرتے تھے یا اس سے بھی بڑھ کر۔  ( ان میں سے ایک )  حضرت معروف کرخی ، اور  ( دوسرے )  حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ہیں ، اور دو اور بزرگ شمار کئے۔  ( یاد رہےیہ صرف چار ہی اولیاء نہیں ہیں بلکہ جو کچھ ان بزرگ نے خود دیکھا ، پایا ، اُس کو بیان کر دیا۔ )  [8]

اللہ رب العزّت ہمیں اسلافِ کرام کے بتائے ہوئے عقائد و نظریات پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* ذمہ دار شعبہ فیضانِ حدیث ، المدینۃ العلمیہ  Islamic Research Center



[1] شفاء السقام فی زیارۃ خیر الانام ، ص383

[2] شفاء السقام فی زیارۃ خیر الانام ، ص379

[3] فتاویٰ رضویہ ، 21 / 331بتغیر

[4] شفاء السقام فی زیارۃ خیر الانام ، ص383

[5] الجوہر المنظم ، ص 61

[6] فتاویٰ رضویہ ، 21 / 329

[7] فتاویٰ رضویہ ، 21 / 326 ، 327بتصرف

[8] اشعۃ اللمعات ، 1 / 762-لمعات التنقیح ، 4 / 215۔


Share

Articles

Comments


Security Code