ایمان والوں کی مثال

حدیث شریف اور اس کی شرح

ایمان والوں کی مثال

*مولانا محمد ناصر جمال عطاری مدنی

ماہنامہ فیضان مدینہ دسمبر2022

اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ اِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى یعنی ایمان والوں کی آپس میں محبت ، رحم اورشفقت ومہربانی کی مثال اُس جسم جیسی ہے جس کاایک حصہ بیمار ہوتوباقی جسم بے خوابی اوربخار کی طرف ایک دوسرے کوبلاتا ہے۔  [1]

رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کاانتخاب بے مثال ہوتا ہے خواہ وہ افراد ہوں یاالفاظ۔اس حدیثِ پاک میں جن الفاظ کو زبان ِ مصطفےٰ سے ادا ہونے کا اعزاز ملا ہےاُن میں مرادی معنی کے اعتبار سےفرق ہے مثلاً :

 ( 1 ) ” تَرَاحُم “ کامعنی ایک دوسرے پررحم کرنا ہے ، مراد یہ ہے کہ مسلمان کسی اور غرض کے بغیر صرف اور صرف اسلامی بھائی چارے کی وجہ سے ایک دوسرے پررحم کریں۔

 ( 2 ) ” تَوادّ “ کامعنی ایک دوسرے سے محبت کرنا ہے ، یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ آپس کی محبت بڑھانے کے تعلقات رکھے جائیں جیسے ایک دوسرے کو تحفے دیئے جائیں ، ملاقات کی جائے وغیرہ۔

 ( 3 ) ” تعاطف “ کامعنی ایک دوسرے پر نرمی کرنا ہے ، اس سے مراد ایک دوسرے کی مدد کرنا ہے۔  [2]

شارحینِ حدیث نے اِس حدیثِ پاک کی جو شرح فرمائی ہے اُس کا خلاصہ ( Summary )  یہ ہے :

رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےاس فرمان کے ذریعے مسلمانوں کے حقوق کاخیال رکھنے ، ایک دوسرے کی مدد کرنے اور نرمی سے پیش آنے کو ایک مثال کے ذریعے سمجھایا ہے۔  [3]جسم کے ہر حصے کانام بھی الگ ہے ، شکل بھی الگ اور کام بھی الگ لیکن روح ایک ہے لہٰذاجسم کے ایک حصے کادرد دوسرے حصے کو بےقرار کردیتا ہےاوروہ ایک دوسرے کواس درد میں شریک ہونے کی دعوت دیتا ہے اورجب تک وہ حصہ پُرسکون نہیں ہوجاتاپورا جسم بےچینی و بےقراری میں مبتلا رہتا ہےیہی معاملہ کامل مسلمانوں کا بھی ہےکہ اگرچہ اُن کے نام ، محلے ، شہر ، ملک ، براعظم ، زبان ، ثقافت ، رہن سہن وغیرہ الگ الگ ہیں مگراُن تمام میں ” روحِ اسلام “ موجود ہے لہٰذاکسی ایک مسلمان پر آنےوالی آزمائش کامل مسلمانوں کو بےقرارکردیتی ہے اور وہ مل کر اِسے ختم کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔

آٹاکب مہنگا ہوا ؟ جس سوسائٹی میں ایک دوسرے کی تکلیف کا احساس مٹ جاتا ہے وہاں بے حِسی بڑھ جاتی ہے ، بہر صورت اپنے فائدے اور نقصان پر توجہ رہتی ہے دوسروں کےتکلیف میں مبتلا ہونے کی پروا نہیں کی جاتی۔ایک صحافی سروے کے لئے غریبوں کے علاقے گیا ، وہاں اُسے فقیر ملا ، صحافی نے فقیر سے پوچھا : آپ کیسے گزارا کرتے ہیں ؟ آٹا بھی اتنا مہنگا ہوگیا ہے ، لوگ تو بہت مشکل میں ہیں۔ فقیر نے حیران ہوکر پوچھا : کب ہوا مہنگا ؟ کتنے دن ہوئے ہیں ؟ صحافی نے جواب دیا : کس دنیا میں رہتے ہو ! ، ایک ہفتے پہلے آٹا مہنگا ہوچکا ہے۔ فقیر نےافسوس کرتے ہوئے جواب دیا : بھیک کے طور پر مجھے جو آٹا ملتا ہے میں روزانہ قریبی دکان دار کو بیچتا ہوں ، وہ تو ایک ہفتے سے مجھ سے پرانے ریٹ ہی پر آٹا لے رہا ہے ! !

ماہرِ احساسات بن جائیے : جس طرح بےحسی سوسائٹی سے ہمدردی اورپُرخلوص محبت مٹا دیتی ہے یوں ہی ” ماہرِ احساس ہونا “ سوسائٹی سےدُکھ ، درد ، آزمائش ، پریشانی اور تکلیف ختم کرنے میں بہت مدد دیتاہے ۔ماہرِ احساسات ہونے کابہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ بندے کے چھوٹے چھوٹے کام اُسے بڑی پریشانیوں سےبچاتے ہیں ، اس بات کو سمجھنے کے لئے ایک حکایت ملاحظہ کیجئے : ایک شخص کو معلوم ہوا کہ اُس کے دو دوست پیٹ کے درد میں مبتلا ہیں لہٰذا وہ اُن میں سےایک دوست کے پاس گیاجو بہت غریب تھا اور اکیلا رہتا  تھا ، سلام کےبعد اُس نےپیٹ میں درد کی وجہ پوچھی تو اُس کا غریب دوست کہنے لگا : کئی دن سے بھوکا رہنے کی وجہ سےمیری یہ حالت ہوئی ہے۔یہ سُن کر اُس نےاپنے غریب دوست کے لئے کھانے کاانتظام کیا۔وہاں سےفارغ ہونے کے بعد وہ دوسرے دوست کے پاس گیا ، وہ بہت امیرتھا ، سلام کےبعد اُس نےپیٹ میں درد کی وجہ پوچھی تو اُس کا امیردوست کہنے لگا : بہت زیادہ کھانے کی وجہ سےاِس حال کوپہنچاہوں۔

دونوں دوستوں کی عیادت کرنے کے بعد وہ اِس نتیجے پرپہنچا کہ یہ دونوں آپس میں مل بانٹ کرکھالیتے تو شاید دونوں کی یہ حالت نہ ہوتی ، زیادہ کھانے کی وجہ سے پیٹ درد کی پریشانی میں مبتلا ہونے والے شخص کو اگر اپنی بھوک کے ساتھ ساتھ غریبوں کی بھوک کا بھی احساس ہوتا اور وہ اپنی بھوک سے زائد کھانا کسی دوسرے بھوکے کا احساس کرتے ہوئے اسے کھلا دیتا تو یہ احساس شاید اسے زیادہ کھانے کی بنا پر ہونے والے پیٹ درد سے بچالیتا۔

تکلیف دور کرنےکی چند قابلِ عمل صورتیں : ہمارے ذہن میں یہ بات ہونی چاہئےکہ دوسروں کی تکلیف دور کرنے کی کوشش کرنا کامل مسلمان کی نشانی ہے لہٰذا ایک کامل مسلمان بننے کے لئے ہمیں دوسروں کی تکلیف دور کرنے کی قابلِ عمل صورتیں اپنانی چاہئیں ، مثلاً  ( 1 ) کسی کی بیمار ی کا معلوم ہو تو  حسبِ حال خیر خواہی کیجئے اور عیادت کرنے کی عادت بنائیے ، حدیثِ پاک میں ہے : جس نے مریض کی عیادت کی ، وہ واپسی تک دریائے رحمت میں غو طے لگاتا رہتا ہے اور جب وہ بیٹھ جاتا ہے تو رحمت میں ڈوب جاتا ہے۔[4]  ( 2 ) ہم ہرایک کی مدد نہیں کرسکتے مگر کسی ایک کی مدد تو کرسکتے ہیں ، ایک شخص کی مدد کرکےہم پوری دنیا نہیں بدل سکتے مگرایک شخص کی دنیا تو بدل سکتے ہیں لہٰذا  تکلیف زدہ مسلمان کادُکھ دور کرنے کی کوشش کیجئے ، حدیثِ پاک میں ہے : جوکسی مسلمان کی تکلیف دور کرے اللہ پاک قِیامت کی تکلیفوں میں سے اُس کی تکلیف دُور فرمائے گا۔  [5]  ( 3 ) مسلمان کی عزت کے محافظ بن جائیے ، حدیث پاک میں ہے : جو مسلمان اپنے بھائی کی عزت کا بچاؤ کرے ( یعنی کسی مسلم کی آبرو ریزی ہوتی تھی اس نےمنع کیا )  تو اللہ پاک پر حق ہے کہ قیامت کےدن اس کو جہنّم کی آگ سے بچائے۔[6]   ( 4 ) دکھی مسلمانوں کو خوش رکھنے کا اہتمام کیجئے ، حدیثِ پاک میں ہے : فرائض کے بعد سب اعمال میں الله پاک کو زیادہ پیارا مسلمان کا دل خوش کرنا ہے۔  [7]  ( 5 ) تکلیف میں مبتلا مسلمان دِل دُکھادے تو اُسے معاف کر دیجئے ، حدیثِ پاک میں ہے : اللہ پاک بندے کے معاف کرنے کی وجہ سے اس کی عزت میں اضافہ فرمادیتا ہے اور جو شخص اللہ پاک کے لئے عاجزی اپناتا ہے اللہ پاک اسے بلندی عطا فرماتا ہے۔[8]   ( 6 )  کسی پر ظلم ہوتا دیکھ کر اُس کی مدد کیجئے ، حدیثِ پاک میں ہے : جس نے کسی غم زدہ مؤمن کی مشکل دورکی یا کسی مظلوم کی مدد کی تواللہ پاک اس شخص کےلئے73 مغفرتیں لکھ دیتا ہے۔[9]   ( 7 )  قرض دار سے قرضہ معاف کرکے یا کم از کم اس کے ساتھ نرمی کرکے اُس کی بےچینی کم کرنے کی کوشش کیجئے ، حدیثِ پاک میں ہے : جو تنگدست کو مہلت دےيا اس کاقرض معاف کر دے اللہ پاک اُسے جہنم کی گرمی سےمحفوظ فرمائےگا۔  [10]

اللہ کریم ہمیں مسلمانوں کےساتھ ہمدردی کرنےاور اُن کادکھ درد دور کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

 

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*  ذمہ دار شعبہ فیضانِ حدیث ، اسلامک ریسرچ سینٹر المدینۃ العلمیہ کراچی



[1] مسلم ، ص1071 ، حدیث : 6586

[2] فتح الباری ، 11 / 372 ، تحت الحدیث : 6011

[3] فتح الباری ، 11 / 372 ، تحت الحدیث : 6011 ماخوذاً

[4] مسند احمد ، 5 / 30 ، حدیث : 14264

[5] مسلم ، ص1069 ، حدیث : 6578

[6] شرحُ السنّۃ ، 6 / 494 ، حدیث : 3422

[7] معجم کبیر ، 11 / 59 ، حدیث : 11079

[8] مسلم ، ص 1071 ، حدیث : 6592

[9] شعب الايمان ، 6 / 120 ، حدیث : 7670

[10] مسنداحمد ، 1 / 700 ، حدیث : 3017


Share

ایمان والوں کی مثال

حدیث شریف اور اس کی شرح

ایمان والوں کی مثال

*مولانا محمد ناصر جمال عطاری مدنی

ماہنامہ فیضان مدینہ دسمبر2022

اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ اِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى یعنی ایمان والوں کی آپس میں محبت ، رحم اورشفقت ومہربانی کی مثال اُس جسم جیسی ہے جس کاایک حصہ بیمار ہوتوباقی جسم بے خوابی اوربخار کی طرف ایک دوسرے کوبلاتا ہے۔  [1]

رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کاانتخاب بے مثال ہوتا ہے خواہ وہ افراد ہوں یاالفاظ۔اس حدیثِ پاک میں جن الفاظ کو زبان ِ مصطفےٰ سے ادا ہونے کا اعزاز ملا ہےاُن میں مرادی معنی کے اعتبار سےفرق ہے مثلاً :

 ( 1 ) ” تَرَاحُم “ کامعنی ایک دوسرے پررحم کرنا ہے ، مراد یہ ہے کہ مسلمان کسی اور غرض کے بغیر صرف اور صرف اسلامی بھائی چارے کی وجہ سے ایک دوسرے پررحم کریں۔

 ( 2 ) ” تَوادّ “ کامعنی ایک دوسرے سے محبت کرنا ہے ، یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ آپس کی محبت بڑھانے کے تعلقات رکھے جائیں جیسے ایک دوسرے کو تحفے دیئے جائیں ، ملاقات کی جائے وغیرہ۔

 ( 3 ) ” تعاطف “ کامعنی ایک دوسرے پر نرمی کرنا ہے ، اس سے مراد ایک دوسرے کی مدد کرنا ہے۔  [2]

شارحینِ حدیث نے اِس حدیثِ پاک کی جو شرح فرمائی ہے اُس کا خلاصہ ( Summary )  یہ ہے :

رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےاس فرمان کے ذریعے مسلمانوں کے حقوق کاخیال رکھنے ، ایک دوسرے کی مدد کرنے اور نرمی سے پیش آنے کو ایک مثال کے ذریعے سمجھایا ہے۔  [3]جسم کے ہر حصے کانام بھی الگ ہے ، شکل بھی الگ اور کام بھی الگ لیکن روح ایک ہے لہٰذاجسم کے ایک حصے کادرد دوسرے حصے کو بےقرار کردیتا ہےاوروہ ایک دوسرے کواس درد میں شریک ہونے کی دعوت دیتا ہے اورجب تک وہ حصہ پُرسکون نہیں ہوجاتاپورا جسم بےچینی و بےقراری میں مبتلا رہتا ہےیہی معاملہ کامل مسلمانوں کا بھی ہےکہ اگرچہ اُن کے نام ، محلے ، شہر ، ملک ، براعظم ، زبان ، ثقافت ، رہن سہن وغیرہ الگ الگ ہیں مگراُن تمام میں ” روحِ اسلام “ موجود ہے لہٰذاکسی ایک مسلمان پر آنےوالی آزمائش کامل مسلمانوں کو بےقرارکردیتی ہے اور وہ مل کر اِسے ختم کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔

آٹاکب مہنگا ہوا ؟ جس سوسائٹی میں ایک دوسرے کی تکلیف کا احساس مٹ جاتا ہے وہاں بے حِسی بڑھ جاتی ہے ، بہر صورت اپنے فائدے اور نقصان پر توجہ رہتی ہے دوسروں کےتکلیف میں مبتلا ہونے کی پروا نہیں کی جاتی۔ایک صحافی سروے کے لئے غریبوں کے علاقے گیا ، وہاں اُسے فقیر ملا ، صحافی نے فقیر سے پوچھا : آپ کیسے گزارا کرتے ہیں ؟ آٹا بھی اتنا مہنگا ہوگیا ہے ، لوگ تو بہت مشکل میں ہیں۔ فقیر نے حیران ہوکر پوچھا : کب ہوا مہنگا ؟ کتنے دن ہوئے ہیں ؟ صحافی نے جواب دیا : کس دنیا میں رہتے ہو ! ، ایک ہفتے پہلے آٹا مہنگا ہوچکا ہے۔ فقیر نےافسوس کرتے ہوئے جواب دیا : بھیک کے طور پر مجھے جو آٹا ملتا ہے میں روزانہ قریبی دکان دار کو بیچتا ہوں ، وہ تو ایک ہفتے سے مجھ سے پرانے ریٹ ہی پر آٹا لے رہا ہے ! !

ماہرِ احساسات بن جائیے : جس طرح بےحسی سوسائٹی سے ہمدردی اورپُرخلوص محبت مٹا دیتی ہے یوں ہی ” ماہرِ احساس ہونا “ سوسائٹی سےدُکھ ، درد ، آزمائش ، پریشانی اور تکلیف ختم کرنے میں بہت مدد دیتاہے ۔ماہرِ احساسات ہونے کابہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ بندے کے چھوٹے چھوٹے کام اُسے بڑی پریشانیوں سےبچاتے ہیں ، اس بات کو سمجھنے کے لئے ایک حکایت ملاحظہ کیجئے : ایک شخص کو معلوم ہوا کہ اُس کے دو دوست پیٹ کے درد میں مبتلا ہیں لہٰذا وہ اُن میں سےایک دوست کے پاس گیاجو بہت غریب تھا اور اکیلا رہتا  تھا ، سلام کےبعد اُس نےپیٹ میں درد کی وجہ پوچھی تو اُس کا غریب دوست کہنے لگا : کئی دن سے بھوکا رہنے کی وجہ سےمیری یہ حالت ہوئی ہے۔یہ سُن کر اُس نےاپنے غریب دوست کے لئے کھانے کاانتظام کیا۔وہاں سےفارغ ہونے کے بعد وہ دوسرے دوست کے پاس گیا ، وہ بہت امیرتھا ، سلام کےبعد اُس نےپیٹ میں درد کی وجہ پوچھی تو اُس کا امیردوست کہنے لگا : بہت زیادہ کھانے کی وجہ سےاِس حال کوپہنچاہوں۔

دونوں دوستوں کی عیادت کرنے کے بعد وہ اِس نتیجے پرپہنچا کہ یہ دونوں آپس میں مل بانٹ کرکھالیتے تو شاید دونوں کی یہ حالت نہ ہوتی ، زیادہ کھانے کی وجہ سے پیٹ درد کی پریشانی میں مبتلا ہونے والے شخص کو اگر اپنی بھوک کے ساتھ ساتھ غریبوں کی بھوک کا بھی احساس ہوتا اور وہ اپنی بھوک سے زائد کھانا کسی دوسرے بھوکے کا احساس کرتے ہوئے اسے کھلا دیتا تو یہ احساس شاید اسے زیادہ کھانے کی بنا پر ہونے والے پیٹ درد سے بچالیتا۔

تکلیف دور کرنےکی چند قابلِ عمل صورتیں : ہمارے ذہن میں یہ بات ہونی چاہئےکہ دوسروں کی تکلیف دور کرنے کی کوشش کرنا کامل مسلمان کی نشانی ہے لہٰذا ایک کامل مسلمان بننے کے لئے ہمیں دوسروں کی تکلیف دور کرنے کی قابلِ عمل صورتیں اپنانی چاہئیں ، مثلاً  ( 1 ) کسی کی بیمار ی کا معلوم ہو تو  حسبِ حال خیر خواہی کیجئے اور عیادت کرنے کی عادت بنائیے ، حدیثِ پاک میں ہے : جس نے مریض کی عیادت کی ، وہ واپسی تک دریائے رحمت میں غو طے لگاتا رہتا ہے اور جب وہ بیٹھ جاتا ہے تو رحمت میں ڈوب جاتا ہے۔[4]  ( 2 ) ہم ہرایک کی مدد نہیں کرسکتے مگر کسی ایک کی مدد تو کرسکتے ہیں ، ایک شخص کی مدد کرکےہم پوری دنیا نہیں بدل سکتے مگرایک شخص کی دنیا تو بدل سکتے ہیں لہٰذا  تکلیف زدہ مسلمان کادُکھ دور کرنے کی کوشش کیجئے ، حدیثِ پاک میں ہے : جوکسی مسلمان کی تکلیف دور کرے اللہ پاک قِیامت کی تکلیفوں میں سے اُس کی تکلیف دُور فرمائے گا۔  [5]  ( 3 ) مسلمان کی عزت کے محافظ بن جائیے ، حدیث پاک میں ہے : جو مسلمان اپنے بھائی کی عزت کا بچاؤ کرے ( یعنی کسی مسلم کی آبرو ریزی ہوتی تھی اس نےمنع کیا )  تو اللہ پاک پر حق ہے کہ قیامت کےدن اس کو جہنّم کی آگ سے بچائے۔[6]   ( 4 ) دکھی مسلمانوں کو خوش رکھنے کا اہتمام کیجئے ، حدیثِ پاک میں ہے : فرائض کے بعد سب اعمال میں الله پاک کو زیادہ پیارا مسلمان کا دل خوش کرنا ہے۔  [7]  ( 5 ) تکلیف میں مبتلا مسلمان دِل دُکھادے تو اُسے معاف کر دیجئے ، حدیثِ پاک میں ہے : اللہ پاک بندے کے معاف کرنے کی وجہ سے اس کی عزت میں اضافہ فرمادیتا ہے اور جو شخص اللہ پاک کے لئے عاجزی اپناتا ہے اللہ پاک اسے بلندی عطا فرماتا ہے۔[8]   ( 6 )  کسی پر ظلم ہوتا دیکھ کر اُس کی مدد کیجئے ، حدیثِ پاک میں ہے : جس نے کسی غم زدہ مؤمن کی مشکل دورکی یا کسی مظلوم کی مدد کی تواللہ پاک اس شخص کےلئے73 مغفرتیں لکھ دیتا ہے۔[9]   ( 7 )  قرض دار سے قرضہ معاف کرکے یا کم از کم اس کے ساتھ نرمی کرکے اُس کی بےچینی کم کرنے کی کوشش کیجئے ، حدیثِ پاک میں ہے : جو تنگدست کو مہلت دےيا اس کاقرض معاف کر دے اللہ پاک اُسے جہنم کی گرمی سےمحفوظ فرمائےگا۔  [10]

اللہ کریم ہمیں مسلمانوں کےساتھ ہمدردی کرنےاور اُن کادکھ درد دور کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

 

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*  ذمہ دار شعبہ فیضانِ حدیث ، اسلامک ریسرچ سینٹر المدینۃ العلمیہ کراچی



[1] مسلم ، ص1071 ، حدیث : 6586

[2] فتح الباری ، 11 / 372 ، تحت الحدیث : 6011

[3] فتح الباری ، 11 / 372 ، تحت الحدیث : 6011 ماخوذاً

[4] مسند احمد ، 5 / 30 ، حدیث : 14264

[5] مسلم ، ص1069 ، حدیث : 6578

[6] شرحُ السنّۃ ، 6 / 494 ، حدیث : 3422

[7] معجم کبیر ، 11 / 59 ، حدیث : 11079

[8] مسلم ، ص 1071 ، حدیث : 6592

[9] شعب الايمان ، 6 / 120 ، حدیث : 7670

[10] مسنداحمد ، 1 / 700 ، حدیث : 3017


Share

Articles

Comments


Security Code