وہ بزرگانِ دین جن کا یومِ وِصال/عرس ذوالحجۃ الحرام میں ہے۔

ذُوالحجّۃ الحرام اسلامی سال کا بارھواں (12)مہینا ہے۔ اس میں جن صَحابَۂ کرام، اَولیائے عظام اور علمائے اسلام کا وِصال یا عُرس ہے، ان میں سے32کا مختصر ذِکر”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“ذوالحجّۃ الحرام1438ھ اور1439ھ کے شماروں میں کیا گیا تھا مزید 13کا تعارف ملاحظہ فرمائیے:صحابَۂ کرام علیہمُ الرِّضوان (1)اِبْنُ غَسِیْلُ الْمَلَائِکَہحضرت سیّدُنا عبداللہ بن حنظلہ اَوْسی انصاری رضی اللہ عنہما کی پیدائش 3ھ کو مدینۂ منوّرہ میں ہوئی اور یہیں ذوالحجۃ الحرام63ھ کو شہید کئے گئے۔ آپ صحابیِ رسول، عالی خاندان کے شریفُ النسب فرد، عالِم و فاضل، خوفِ خدا و عشقِ رسول سے معمور، دلیر و نڈر مجاہد اور واقعۂ حَرَّہ میں اہلِ مدینہ کے سردار تھے۔ شہادت کے بعد حضرت عبداللہ بن ابی سفیان نے آپ کو خواب میں جنّت میں دیکھا۔(اسدالغابہ،ج3،ص220) (2)حضرت سیّدُنا ضحاک بن قیس قرشی فہری رضی اللہ عنہ مدینۂ منوّرہ میں3ھ کو پیدا ہوئے، ذوالحجۃ الحرام64ھ کو مَرْجِ راہِط (نزد دمشق) شام میں شہید ہوئے۔ آپ شجاعت کے پیکر، جذبۂ جہاد سے سَرشار اور کئی جنگوں میں کارہائے نمایاں سَرانجام دینے والے تھے، آپ کو سیاسی اور انتظامی اُمور میں بھی مہارت تھی۔ کوفہ کے گورنر رہے، حضرت سیّدُنا امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی نمازِ جنازہ آپ نے ہی پڑھائی، آپ سے حدیثِ پاک بھی مروی ہے۔ آپ کی بڑی ہمشیرہ حضرت فاطمہ بنتِ قیس رضی اللہ عنہا جلیلُ القدر صَحابیہ، عالِمہ و محدِّثہ، نہایت زِیرک، مُعاملہ فہم، جمال و کمال سے مالا مال، صاحبُ الرائے، زوجۂ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما اور ہجرت کی سعادت پانے والی تھیں۔(اسد الغابہ،ج 3،ص49، الاستیعاب،ج 4،ص454) اولیائے کرام رحمہم اللہ السَّلام (3)شیخُ الطّالبین ثانی حضرت سیّدُنا امام عبداللہ محض کامل رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت70ھ مدینۂ منوّرہ میں ہوئی اور وصال 10ذوالحجۃ الحرام145ھ کو ہوا، مزار مبارک شنافیہ (صوبہ دیوانیہ) عراق میں ہے۔ آپ امام حسن کے پوتے اور امام حسین رضی اللہ عنہما کے نواسے تھے یوں آپ حَسَنی حُسَینی سیّدوں کے جدِامجد ہیں۔ آپ تابعی، عالمِ باعمل اور حدیث کے ثقہ راوی ہیں۔(اعلام للزرکلی،ج 4،ص78، تاریخِ ابن عساکر،ج 27،ص364، تاریخِ بغداد،ج 9،ص438) (4)حضرت مخدوم سیّد منہاجُ الدّین راستی حسینی رضوی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت بغداد شریف میں غالباً آٹھویں صدی ہجری کی ابتدا میں ہوئی اور وِصال29ذوالحجۃ الحرام 786ھ کو پھلواری شریف (ضلع پٹنہ بہار) ہند میں فرمایا، اسی شہر میں ٹم ٹم پڑاؤ نامی علاقے میں آپ کا مزار زیارت گاہِ عام ہے۔ آپ مخدومِ جہاں شیخ شرفُ الدّین یحییٰ منیری رحمۃ اللہ علیہ کے جلیلُ القدر خلیفہ، ولیِ کامل اور صاحبِ کرامت بزرگ ہیں۔(تذکرۃ الصالحین، ص82،84) (5)شہنشاہِ ناسک، حضرت پیر سیّد صادق شاہ حسینی مدنی رحمۃ اللہ علیہ مدینہ شریف میں پیدا ہوئے۔ اپنے والد حضرت سیّد امینُ الدّین شیرمحمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ سے علم و عرفان اور سلسلۂ قادریہ کی نعمت پائی۔ ہند میں آکرسلسلۂ چشتیہ اور سلسلۂ شطاریہ کے بزرگوں سے بھی فیض پایا پھر مستقل ناسِک (صوبہ مہارا شٹر) ہند میں قیام فرمایا۔ آپ کی دعوت سے کثیر غیرمسلم مسلمان ہوئے۔ 16ذوالحجۃ الحرام 1049ھ کو وصال ہوا۔ مزارناسک میں مرجعِ خلائق ہے۔(تذکرۃ الانساب، ص240، ماہنامہ اعلیٰ حضرت، جنوری 2010، ص43) (6)پیرِ طریقت حضرت علّامہ غلام محی الدّین احمد مکھڈی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت1275ھ کو مَکَھڈ شریف (تحصیل جنڈضلع  اٹک، پنجاب) پاکستان میں ایک علمی خانوادے میں ہوئی اور یہیں 8ذوالحجۃ الحرام 1338ھ کو وصال فرمایا۔ آپ علومِ معقول و فنون اور علمِ حدیث کے مضبوط مُدرِّس، خلیفۂ خواجہ اللہ بخش کریم تونسوی، شیخِ طریقت اور خانقاہِ معلیٰ مولانا محمد علی مکھڈی کے سجادہ نشین تھے۔(قندیل سلیمان، جولائی تا ستمبر2017، ص51تا 65) (7)شیخُ المشائخ حضرت خواجہ امیر احمد بَسَالْوی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت موضع تھگ سوڑو نزد تونسہ شریف (ضلع ڈیرہ غازی خان، جنوبی پنجاب) پاکستان میں1281ھ کو ہوئی اور وفات 21 ذوالحجۃ الحرام1357ھ بسال شریف (تحصیل جنڈ، ضلع اٹک) میں ہوئی۔ آپ فاضل مدرسہ آستانہ عالیہ تونسہ شریف، جید عالمِ دین، درسِ نظامی کے استاذ، خلیفہ خواجہ اللہ بخش کریم تونسوی اور شیخِ طریقت تھے۔(تذکرہ علمائے اہلسنت ضلع اٹک، ص 154) (8)تاجُ الاولیاء پیر محمد عبدالشکور جہانگیری رحمۃ اللہ علیہ 1294ھ کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے اور 10ذوالحجۃ الحرام 1374ھ کو مرکزُالاولیاء لاہور میں وصال فرمایا۔ یہیں جیون ہانہ گارڈن ٹاؤن میں اپنی قائم کردہ خانقاہ میں دفن کئے گئے۔ آپ ولیِ کامل اورسلسلہ جہانگیریہ شکوریہ کے بانی تھے۔ (معارف رضا، سالنامہ 2006ء، ص216،217) (9)قطبِ لاہور، استاذِ حکیمُ الاُمّت، حضرت علّامہ مفتی حافظ عزیز احمد قادری بدایونی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1319ھ کو آنولہ (بانس بریلی، یوپی) ہند میں ہوئی اور وصال یکم ذوالحجۃ الحرام1409ھ کو مرکزُالاولیاء لاہور میں فرمایا، مزار قبرستان حضرت جان محمد حضوری (نزد چوک گڑھی شاہو) میں ہے۔ آپ حافظِ قراٰن، فاضلِ مدرسہ قادریہ بدایون، ماہرِ علومِ نقلیہ و عقلیہ، استاذُ العلماء، شیخُ الحدیث والتفسیر، مفتیِ اسلام، زیارتِ اعلیٰ حضرت سے مشرف، عارف باللہ، خلیفۂ قطبِ مدینہ تھے۔ امیرِ اہلِ سنّت علّامہ محمد الیاس عطّاؔر قادری کو تمام سَلاسِل میں اجازت بھی عطا فرمائی۔(احوال و آثار مفتی عزیز احمد قادری بدایونی، ص 29، 53، 108) علمائے اسلام رحمہم اللہ السَّلام (10)حضرت علّامہ ابنِ اَثیر مبارَک بن محمد جَزْرِی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش 544ھ جزیرہ ابوعمر (صوبہ شرناق، ترکی) میں ہوئی اور 29ذوالحجۃ الحرام 606ھ کو مُوصَل عراق میں وفات پائی۔ آپ قراٰن و حدیث، فقہ اور اصولِ فقہ میں بہت بڑے عالِم تھے، عوام و خواص میں معروف اور مرجع تھے۔ آپ کی 9تصانیف میں اَلنِّھَایَۃ فِی غَرِیْبِ الْحَدِیْثِ وَالْاَثَر اور کِتَابُ الشَّافِی شائع شدہ ہیں۔(وفیات الاعیان،ج 4،ص7،8) (11)شیخُ الاسلام امام تاجُ الدّین عبدالوہاب سُبکی شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت727ھ میں سُبک (ضلع منوفیہ، صوبہ قاہرہ) مصر میں ہوئی اور ذوالحجۃ الحرام 771ھ کو دمشق میں وصال فرمایا، آپ فقیہ شافعی، مؤرخ عربی، قاضیُ القضاۃ دمشق اور بارہ سے زائد کتب کے مصنف ہیں۔ طبقاتِ شافعیہ آپ کی ہی تصنیف ہے۔(طبقات الشافعیہ، مقدمۃ التحقیق،ج1،ص9،15، شذرات الذھب،ج 6،ص419، 420) (12)عالمِ باعمل امام گامُوں حضرت مولانا حافظ غلام محمد قادری رحمۃ اللہ علیہ ماہرِ علومِ دینیہ، امام و خطیب جامع مسجد وزیر خاں، فارسی زبان کے شاعر، اعلیٰ خوش نویس، قراٰنِ مجید کی اپنے ہاتھ سے کتابت کرنے والے، کئی کتابوں کے مصنف اور پُراَثر واعظ تھے۔ آپ کا وصال 25ذوالحجۃ الحرام 1242ھ کو ہوا، مزار مسجد وزیر خان (اندرونِ دہلی دروازہ، مرکزُ الاولیاء لاہور) کے احاطے کے باہَرجنوب میں ایک بلند گنبد کے سائے میں ہے۔ (تذکرہ علماء اہلسنت و جماعت لاہور، ص133) (13)صاحبِ حدیقۃُ الاولیاء حضرت مولانا مفتی غلام سرور لاہوری سہروردی چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت1244ھ کو مرکزُ الاولیاء لاہور میں ہوئی اور 24ذوالحجۃ الحرام1307ھ کو دورانِ سفرِ مدینہ وصال فرمایا۔ تدفین بیر بالاحسانی نزد بدر کے مقام پر ہوئی۔ آپ جید عالمِ دین، اُردو، فارسی دونوں زبانوں کے ماہر، شاعرِاسلام، بہترین ادیب، ماہرِ لغت، جلیلُ القدر تذکرہ نویس اور 20 کتب کے مصنف تھے۔(تذکرہ اکابرِ اہلِ سنّت، ص 320،317)


Share