کیا دین ہر آدمی کا ذاتی معاملہ ہے؟

آج کل یہ سوچ  عام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ دین ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے، ہمیں کسی کے معاملے میں کچھ بھی نہیں بولنا چاہیے۔ لوگ جو کر رہے ہیں ان کو کرنے دیا جائے یہ ان کا اور خدا کا معاملہ ہے، لہٰذا اگر لوگ غیر محرم عورتوں کے ساتھ پارکوں میں گھومنےجاتے ہیں یا شراب نوشی یا گانے وغیرہ سننے کے گناہوں میں مبتلا ہیں تو کہا جاتا ہے کہ ہمیں لوگوں کی ذاتیات میں دخل دینے،انہیں سمجھانے اور اخلاق کی درستی کا سبق دینے کی حاجت نہیں ہے ہمیں صرف اور صرف اپنی ذات پر توجہ دینی چاہیے ۔

اس حوالے سے یہ عرض ہے کہ لوگوں کو خدا کی نافرمانی سے بچنے کا ذہن دینا ، سمجھانا اور کوشش کرنا کوئی مداخلت نہیں بلکہ نیکی کا کام ہے۔ شیطان کو اس سے زیادہ کوئی چیز پسند نہ ہوگی کہ لوگ دوسروں کو برائی سے روکنا چھوڑ دیں کیونکہ شیطان برائی کا حکم دیتا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ برائی کی دعوت دینا تو جاری رہے جبکہ برائی سے روکنا بند ہوجائے۔ آزادی، روشن خیالی وغیرہ کے نام پر گناہ کے کاموں سے روکنے کے خلاف یہ سوچ واقعتاً پوری دنیا میں پھیلتی جارہی ہے۔ سب سے پہلے يہ ذہنیت غیر مسلموں میں آئی اور انہوں نے دین کو یہ کہہ کر گھروں میں محدود کردیا کہ دین انسان کا ذاتی معاملہ ہے لہٰذا اپنے گھر کے اندر لوگ جتنا چاہیں دین پرعمل کریں لیکن دوسروں کو دین کے حوالے سے کوئی ترغیب نہ دیں بلکہ جو جس طرح چل رہا ہے چلنے دیں۔ غیروں سے متأثر و مرعوب ہوکر یہ سوچ بہت سے مسلمانوں میں بھی پیدا ہونا شروع ہوگئی کہ مثلاً کوئی شخص غیر مسلم ممالک میں سیر کرنے گیا اوردیکھا کہ جس نے نماز پڑھنی ہے وہ نماز پڑھ رہا ہے اورجس نے شراب پینی ہے وہ شراب پی رہا ہے۔ جو مسجد جانا چاہتا ہے وہ مسجد جارہا ہے اورجو کسی جوئے خانے یا کلب میں جانا چاہتا ہے وہ کلب جارہا ہے ،نہ یہ اس کو کچھ کہتا ہے اورنہ وہ اس کو کچھ کہتا ہے ۔ اس پر لوگ بڑا خوش ہوتے ہیں کہ دیکھو کتنا پُرسکون ماحول ہے کہ ہر بندہ اپنی دنیا میں مگن ہے، پھر ایسے مشاہدات کو فخریہ انداز میں بنا سنوار کے پیش کیا جاتا ہے لیکن بحیثیتِ مسلمان ہم سب سے پہلے یہ دیکھیں گے کہ اس معاملے میں ہمارے دین نے ہماری کیا رہنمائی فرمائی ہے؟ کیا شرابیں پی جارہی ہوں، بدکاریاں پھیل رہی ہوں، جوئے خانے آباد ہوں،بے حیائی عام ہو، گناہوں کا بازار گرم ہوتو کیا ایسے موقع پر برائیوں سے روکنے کی کوشش کرنا یا اس پر خاموش رہنا ہماری مرضی پر ہےکہ ہم چاہیں تو بولیں اور چاہیں تو نہ بولیں یا ہمارے لئے کچھ خاص حکم ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں اس کے متعلق بڑے واضح احکام ہیں۔ قرآن میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں بحیثیتِ امت مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

(كُنْتُمْ  خَیْرَ  اُمَّةٍ  اُخْرِجَتْ  لِلنَّاسِ   تَاْمُرُوْنَ  بِالْمَعْرُوْفِ  وَ  تَنْهَوْنَ  عَنِ  الْمُنْكَرِ )ترجمہ كنزالعرفان: (اے مسلمانو!) تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی ہدایت) کے لئے ظاہر کی گئی، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو۔ (پ4، اٰل عمرٰن: 110)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) معلوم ہوا کہ نیکی کی دعوت دینا اور برائی سے منع کرناامت کا فریضہ ہے جس کو ادا ہی کرینگے، اسے ترک نہیں کیاجاسکتا۔

یونہی ایک مقام پر فرمایا:

( وَ  لْتَكُنْ  مِّنْكُمْ  اُمَّةٌ  یَّدْعُوْنَ  اِلَى  الْخَیْرِ  وَ  یَاْمُرُوْنَ  بِالْمَعْرُوْفِ  وَ  یَنْهَوْنَ  عَنِ  الْمُنْكَرِؕ-وَ  اُولٰٓىٕكَ  هُمُ  الْمُفْلِحُوْنَ(۱۰۴) ) ترجمہ كنزالعرفان: اور تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہئے جو بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اور بری بات سے منع کریں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ (پ4، اٰل عمرٰن: 104)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) ان آیات سے واضح ہوتا ہے کہ ہمیں یہ اجازت نہیں کہ ہم برائی دیکھیں اورسمجھانے یا روکنے کی قدرت کے باوجود آنکھیں بند کرلیں۔ برائی سے روکنے کا عمل چھوڑنے پر اللہ تعالیٰ نے پچھلی امتوں کے حوالے سے بھی سخت وعیدیں بیان کی ہیں چنانچہ فرمایا : (  لُعِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْۢ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ عَلٰى لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَؕ-)ترجمہ كنزالعرفان: بنی اسرائیل میں سے کفر کرنے والوں پر داؤد اور عیسیٰ بن مریم کی زبان پرسے لعنت کی گئی۔(پ 6، المآئدۃ:78)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) جن جرائم کی وجہ سے اُن پر لعنت کی گئی ان میں سے ایک جرم یہ بیان کیا: (  كَانُوْا لَا یَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُؕ-) ترجمہ كنزالعرفان:وہ ایک دوسرے کو کسی برے کام سے منع نہ کرتے تھے جو وہ کیا کرتے تھے۔(پ6، المآئدۃ:79)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) گویا ان کا طرزِ عمل یہ تھا کہ وہاں برائی،گناہ، معصیت، سرکشی، نافرمانی، خدا کے احکام سے منہ پھیرنا عام تھا لیکن انہیں اس پر کوئی غیرت و حمیت محسوس نہ ہوتی تھی، ہر بندہ اپنی دنیا میں مست تھا، کہتا تھاکہ میں تواپنی ذات کو دیکھوں گا، مجھے دوسرے کی ذاتیات میں دخل دینے کی حاجت نہیں۔ دوسرا جو کررہا ہے وہ اس کے ساتھ ہے، اس نے اپنی قبر میں جانا ہےاور مجھے اپنی قبر میں جانا ہےلیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے اسی طرزِ عمل کو ان کے جرم کے طور پر بیان کیا کہ ( كَانُوْا لَا یَتَنَاهَوْنَ) وہ ایک دوسرے  کو منع نہیں کرتے تھے( عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُؕ-) اس برائی سے جس برائی کا وہ قوم مرتکب تھی ۔ یعنی اس معاشرے میں برائیاں تھیں لیکن وہ اس سے منع نہیں کرتے تھے اور یہی چیز اس کا سبب بن گئی  کہ اللہ  کے دو نبیوں نے ان پر لعنت کی (  عَلٰى لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَؕ-) یونہی قرآنِ پاک میں  ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے علماء اور درویشوں کے جرائم بیان کئے كہ ان پہ  اللہ تعالیٰ کا غضب کیوں اترا؟ خدا نے ان پر لعنت کیوں کی؟ اور وہ لوگ  خدا کے غضب کا شکارکس وجہ سے ہوئے؟  ان کے جرائم کی جوفہرست بیان کی گئی ہے اس میں یہ بیان کیا گیا: ( لَوْ لَا یَنْهٰىهُمُ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَ الْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِهِمُ الْاِثْمَ وَ اَكْلِهِمُ السُّحْتَؕ-لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَصْنَعُوْنَ(۶۳))ان کے درویش اور علماء انہیں گناہ کی بات کہنے اور حرام کھانے سے کیوں نہیں منع کرتے ۔ بیشک یہ بہت ہی برے کام کررہے ہیں۔ (پ 6، المآئدۃ:63)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) یہ ان لوگوں کےلئے خدا کی ڈانٹ تھی  کہ ان کے علمائے ظاہر یعنی فقہا اور علمائے باطن یعنی درویشوں، راہبوں، صوفیوں نے اپنی قوم کو(قَوْلِهِمُ الْاِثْمَ ) گناہ کی بات کہنے سے (وَ اَكْلِهِمُ السُّحْتَؕ) اور حرام کھانے سے کیوں منع نہیں کیا۔’’حرام کھاناکیا تھا ‘‘ یہی کہ قوم میں سود ، رشوت، خیانت،  ملاوٹ، دھوکہ دہی عام تھی ،حرام و حلال کی تمیز نہیں تھی اور ’’گناہ کی بات کیا تھی؟‘‘ یہی کہ لوگوں میں جھوٹ ، غیبت، بہتان تراشی، گالیاں،فحش بکنا عام تھا لیکن ان کے علما اور  درویش خاموش تھے اور نتیجہ یہ  ہوا کہ غضبِ الٰہی کا  شکار ہوئے ۔

لہٰذا ایسی بے پروائی کی ہمارے دین میں اجازت نہیں کہ بے حیائی عام ہو، اللہ اور بندوں کے حقوق  پامال ہورہے ہیں اور لبرل ازم کا شوق پورا کرنے کے چکر میں یہ کہا جائے کہ مذہب لوگوں کا ذاتی معاملہ ہے اور ہم اس معاملے میں بالکل خاموش رہیں گے، ہمیں ان کے اخلاق کی درستی کا سبق دینے کی حاجت نہیں ہے ہمیں صرف اور صرف اپنی ذات پر توجہ دینی چاہیے۔ یہ سوچ ہرگز ہرگز اسلامی نہیں بلکہ قرآن و حدیث کی صریح تعلیمات کے خلاف ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں دینِ اسلام کا سچا مبلغ بنائے۔ اٰمین

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…دارالافتا ءاہل سنت عالمی مدنی مرکز ،باب المدینہ کراچی 


Share

Articles

Comments


Security Code