Book Name:Ehad Nibhaye

غیر مسلموں کو اے بنی اسرائیل کہہ کر پُکارا گیا، یعنی اے وہ لوگو! جن کے والِد بہت فرمانبردار تھے، تم بھی اپنے والد کے طریقے پر چلو اور اللہ پاک کے فرمانبردار بن جاؤ!([1])

یہ ایک خوبصُورت خطاب ہے، اس میں یہ سبق ہے کہ جب کسی کو سمجھانا ہو تو ایسے پیارے، خوبصُورت اور ترغیبی الفاظ کے ساتھ سمجھایا جائے، ظاہِر ہے جب ہم کسی کو *اے بیوقوف! *اے گنہگار کے بیٹے! *تمہارا باپ بھی ایسا تھا وغیرہ کہیں گے تو سامنے والا سمجھے گا نہیں، اُلٹا ضدی ہو جائے گا۔ اس لئے سمجھاتے وقت اچھے اچھے الفاظ استعمال کریں، مثلاًآپ تو بہت اچھے ہیں، مَاشَآءَ اللہ! آپ کے اَبُّو فُلاں نیکی کرتےتھے، آپ کے اندر بھی یہ یہ اچھائیاں ہیں، نماز بھی پڑھا کیجئے! اسے سینڈوچ میتھڈ (Sandwich Mathod)کہتے ہیں، یعنی سمجھانے کی ابتدا بھی سامنے والے کی اچھائیوں سے کریں، اِختتام بھی اچھائیوں پر کریں، درمیان میں اس بات کا ذِکْر کریں، جو اس میں بُرائی پائی جاتی ہے۔ اس سے اِنْ شَآءَ اللہُ الْکَرِیْم! سمجھانے کا فائدہ زیادہ ہو جائے گا۔

(2):نعمتیں یاد کیجئے!

 پیارے اسلامی بھائیو! اللہ پاک نے بنی اسرائیل کو فرمایا:

اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ (پارہ:1، البقرۃ:40)

ترجمہ کنزُ العِرفان: یاد کرو میرا وہ احسان جو میں نے تم پر کیا۔

اس سے معلوم ہوا نعمتوں کو یاد کرنا دِل میں فرمانبرداری بڑھاتا ہے، اسی لئے بنی اسرائیل کو کہا گیا کہ جو نعمتیں تم پر ہوئیں، انہیں یاد کرو! اور اس ذریعے سے اللہ پاک کے


 

 



[1]... تفسیر روح المعانی، پارہ:1، سورۂ بقرۃ، زیر آیت:40، جلد:1، صفحہ:327 خلاصۃً۔