Book Name:Ehad Nibhaye

جانتے ہیں کیا ہے؟ ہماری نظر میں دُنیا کی اہمیت زیادہ ہے۔ یعنی ہم لوگ دُنیا کو پہلے اور آخرت کو بعد میں رکھتے ہیں، مثلاً کام پر لازمی جانا ہے، ٹائِم مل گیا تو نماز بھی پڑھ لیں گے، ورنہ (مَعَاذَ اللہ!) قضا کر ڈالیں گے۔ یعنی لوگ آخرت کے مُعَاملات میں سمجھوتہ کر لیتے ہیں، دُنیا کے مُعَاملے میں نہیں کرتے۔ دُنیا کی بات ہو تو ہم آج اور ابھی تیار ہیں، آخرت کی بات ہو، نیکی کی بات ہو، نماز، روزے کی بات ہو تو ... رمضان سے شروع کر لیں گے، کل سے نمازیں شروع کروں گا، یہ جو ہمارا رَوَیّہ ہے، یہ غلط ہے۔ اللہ پاک قرآنِ کریم میں فرماتا ہے:

بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا٘ۖ(۱۶) وَ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰىؕ(۱۷) (پارہ:30، الاعلیٰ:16-17)

ترجمہ کنزُ العِرفان: بلکہ تم دنیاوی زندگی کو ترجیح دیتے ہو اور آخرت بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔

اس کا اُلٹ کرناسیکھئے! آخرت کو پہلے اور دُنیا کو بعد میں رکھنا شروع کیجئے!دیکھئے گا؛ زندگی سنور جائے گی۔ حدیث  پاک کا خلاصہ ہے: اللہ پاک آخرت کے طلبگار کو دُنیا تو عطا فرما دیتا ہے مگر دُنیا کے طلبگار کو آخرت عطا نہیں فرماتا۔([1]) اس لئے ہمیں چاہئے کہ آخرت کے طلبگار بن جائیں، دُنیا قسمت میں ہوئی تو خُود ہی مل جائے گی۔

تَوبہ کا ذِہن کیسے بنا...؟

ایک بزرگ تھے، ان سے کسی نے پوچھا: عالی جاہ! آپ کا تَوبہ کرنے اور اللہ پاک کی عبادت کی طرف آنے کا ذِہن کیسے بنا؟ انہوں نے اپنا واقعہ بتایا، فرمایا: میں چکّی چلاتا تھا ( یعنی چکّی کے ذریعے آٹا پیسا کرتا تھا) ۔ رہائش گاؤں میں تھی، جمعہ پڑھنے کے لئے دُور شہر کی


 

 



[1]...الزہد لابن المبارک، الجزء الرابع، باب ھوان الدنیا علی اللہ عزوجل، صفحہ:186، حدیث:549 خلاصۃً۔