Book Name:Yai Baray Karam Ke Hain Faisalay
بےادبیوں کے سبب اِن پر ذِلّت برس گئی، اللہ پاک کا غضب اِن پر نازِل ہو گیا اور یہ ہمیشہ کے لیے رحمت و بَرَکت سے مَحْرُوم ہو گئے۔
وہ قوم کہ فیضانِ سماوِی سے ہو مَحْروم
حَدْ اس کے کمالات کی ہے بَرْق و بُخَارات([1])
مَفْہُوم : یعنی جو قوم فیضانِ نبوت سے مَحْرُوم رہ جاتی ہے، وہ پِھر مادِیَّت پرست ہی رہ جاتی ہے، ایسی قوم صِرْف پانی سے بُخارات اور بُخارات سے بادَل بننے پر ہی تجربے کر سکتی ہے، کوئی روحانی ترقی نہیں کر سکتی۔
چونکہ بنی اِسْرائیل گستاخ تھے، فیضانِ نبوت سے مَحْرُوم ہو گئے، روحانِیّت، اِنْسانِیت ان کے اندر سے ختم ہو کر رہ گئی تھی، لہٰذا یہ ہم مسلمانوں کو بھی اِسی کھائی میں گِرا دینا چاہتے ہیں۔ اِس مقصد کے لیے یہ لوگ *کبھی خود گستاخیاں کرتے ہیں*کبھی مَعَاذَ اللہ! خاکے بناتے ہیں*کبھی مسلمانوں کے درمیان اپنے کارندے شامِل کرتے ہیں، وہ عُلَما والا حلیہ اپنا کر، ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بیٹھ کر گستاخیاں کرتے ہیں*پِھر ان باتوں کو آزادئ اِظْہارِ رائے کا نام دیتے ہیں، مقصد کیا ہے؟ یہی کہ کسی طرح مسلمان اپنے نبی صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کی شان میں غلط سلط جملے بکنا شروع ہو جائیں، اُس وقت کے یہودیوں نے بھی یہی کیا تھا، صحابہ کرام رَضِیَ اللہ عنہم کو نہیں کہا تھا کہ تم گستاخانہ جملے بولو! خُود بولنا شروع ہو گئے تھے کہ ہماری دیکھا دیکھی یہ بھی غلط لفظ مُنہ پر لائیں گے اور فیضانِ نبوت سے مَحْرُوم ہو جائیں گے۔ آج بھی غیر مسلم یہی طریقہ اِخْتیار کرتے ہیں۔