Book Name:Ala Hazrat Aur Naiki Ki Dawat
کُوٹ کُوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ آپ کے بچپن شریف کا واقعہ مشہور ہے۔ایک مرتبہ اُستاد صاحِب مَدرَسے میں بچوں کو سبق پڑھا رہے تھے، سیّدی اعلیٰ حضرت رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ بھی اُنہی بچوں میں موجود سبق پڑھ رہے تھے، اِتنے میں ایک بچہ کلاس میں داخِل ہوا، اُس نے اُستاد صاحِب کو سلام کیا، اُستاد صاحِب کی زَبان سے نکلا: جیتے رہو یہ سُن کر اعلیٰ حضرت رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ چونکے، اُستاد صاحب کی خدمت میں عَرْض کیا: اُستادِ مُحترَم! سلام کے جواب میں تو وَعَلَیْکُمُ السَّلَامکہنا چاہئے۔
اُستاد صاحِب بھی نیک آدمی تھے، اُنہوں نے نَنّھے مُبَلِّغ یعنی سیّدی اعلیٰ حضرت رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کی زَبان سے اِصْلاحی جُملہ سُنا تو ناراض نہیں ہوئے بلکہ خُوش ہو کر اپنے ہونہار شاگردکو ڈھیروں دُعاؤں سے نوازا۔ ([1])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد
پیارے اسلامی بھائیو! اِس میں ایک تو ہمارے لئے یہ دَرْس ہے کہ ہمیں بھی چاہئے جب کوئی اچھی بات کہے، ہمیں سمجھائے، غَلَطی بتائے یا نیکی کی دَعوت دے تو خَندَہ پیشانی سے اُس کی بات مان کر اپنی اِصْلاح(Refinement) کر لیا کریں، ہمارے ہاں عموماً لوگ بِگڑ جاتے ہیں، اپنی عُمر، مَنْصَب، عُہدے یا اِسٹیٹس وغیرہ کی آڑ میں چھپتے اور اپنی اِصْلاح سے محروم رہ جاتے ہیں۔ بعض نادان تو اِصْلاح کرنے والے کو جلی کٹی بھی سُنا ڈالتے ہیں کہ اپنی عُمر تو دیکھ! تجھے ابھی پتا ہی کیا ہے؟ کل کا بچّہ ہو کر مُجھے سمجھانے آیا ہے وغیرہ۔ ایسوں