Book Name:Mata e Ghurur (Dhokay Ke Saman) Ka Sauda
بِالْاٰخِرَةِ٘ (پارہ:1، البقرہ:86)
نے آخرت کے بدلے دُنیا کی زِندگی خرید لی۔
یعنی اُن بنی اسرائیل کی اَصْل بیماری یہ ہے کہ اُنہوں نے آخرت کے بدلے میں دُنیا کو اِختیار کر لیا، فانِی دُنیا کی محبّت اُن کے دِلوں میں رَچْ بس گئی، اُن کا حال یہ تھا کہ مثلاً اُن کے سامنے کوئی ایسی چیز آئی جو دُنیا کے لیے فائدے مند اور آخرت کے لیے نُقصان دِہ تھی تو اُنہوں نے آخرت کی پَرواہ کئے بغیر اُس چیز کو اَپنا لیا اور اگر کوئی ایسی چیز سامنے آئی جو آخرت کے لیے فائدے مند اور دُنیا کے لیے نُقصان دِہ تھی تو اُنہوں نے بغیر سوچے سمجھے اُس چیز کو چھوڑ کر آخرت کا نُقصان کر لیا۔ پس یہی اُن کا اَصْل مرض ہے کہ اُنہوں نےآخرت کو چھوڑ دیا، دُنیا کو اَپنا لیا۔ اَب اُن کی سزا کیا ہے؟ فرمایا:
فَلَا یُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ (پارہ:1، البقرہ:86)
تَرجَمۂ کَنزالْعِرفَان:تو اُن سے نہ تو عذاب ہلکا کیا جائے گا۔
آخرت کے عذاب میں کمی ہو جانا، ہلکا عذاب ملنا یہ بھی آخرت کا ایک نفع ہے مگر بنی اِسْرائیل نے جو جُرْم کئے ہیں، وہ اِتنے سخت ہیں کہ اُن کے عذاب میں ہر گز کمی بھی نہیں کی جائے گی بلکہ ہمیشہ سخت تَرِین عذاب ہی کا مزہ چکھیں گے۔
بخاری شریف میں حدیثِ پاک ہے، اَبُولَہْب جو غیر مُسْلِم تھا، گستاخِ رسول تھا، حالتِ کفر ہی میں دُنیا سے گیا اور ہمیشہ کے لیے جہنّم کا حقدار ہو گیا۔ اُسے کسی نے خواب میں دیکھ کر پوچھا: کیا گزری؟ کہا: تم لوگوں سے بچھڑ کر کوئی بَھلائی نہ ملی۔ ہاں! میرے اَنگوٹھے سے مجھے پانی دِیا جاتا ہے۔ کیونکہ میں نے ثُوَیْبَہ کو آزاد کیا تھا۔([1])