Book Name:Saadat Mand Kon

ابھی رمضانُ المبارک کی گھڑیاں ہیں، یہ مہمان مہینا ہے، آیندہ سال ہم رمضانُ المبارک کو دیکھ پاتے ہیں یا نہیں، اس کی ہمارے پاس کوئی گارنٹی نہیں، اس لئے ہمیں چاہئے کہ سعادت مند بنیں اور ان مبارَک گھڑیوں کی قدر کریں، زیادہ سے زیادہ وقت نیکیوں میں گزارنے کی کوشش کریں۔

نیک لوگ اور وقت کی قدر

ہمارے بزرگانِ دِین وقت کی کس انداز میں قدر کیا کرتے تھے، سنیئے! حضرت عثمان بَاقِلَّاوِی رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کثرت کے ساتھ ذِکْرُ اللہ کیا کرتے تھے، آپ فرماتے ہیں: افطار کا وقت مجھ پر بہت بھاری ہوتا ہے، مجھے یُوں لگ رہا ہوتا ہے کہ جیسے ابھی رُوح نکل جائے گی۔ (آپ کو ایسا کیوں لگتا تھا، ذرا تَوَجُّہ سے سنیئے! فرماتے ہیں) چونکہ افطار تَو کرنا ہی ہوتا ہے، لہٰذا کچھ نہ کچھ کھانا پڑتا ہے اوراس دوران میں ذِکْرُ اللہ سے محروم رہ جاتا ہوں۔([1])

اللہُ اکبر! کیا شان ہے...!! اندازہ لگائیے! یہ نیک لوگ وقت کے کتنے قدردان تھے، چند لمحے *فضولیات میں نہیں *گُنَاہوں بھرے کاموں میں نہیں *کرکٹ کھیلتے ہوئے*گلیوں بازاروں میں گھومتے ہوئے*موبائل چلاتے ہوئے *سوشل میڈیا وغیرہ پر فضولیات میں پڑے ہوئے *فیس بُک پرفضول میں سکرولنگ کرتے ہوئے *بےفائدہ پوسٹیں پڑھتے ہوئے، غیر ضروری بلکہ گُنَاہوں بھری ویڈیوز دیکھتے ہوئے *دُنیا جہان کے خبرنامے سُنتے ہوئے نہیں بلکہ افطار کے وقت کھانا کھاتے ہوئے ذِکْرُ اللہ سے مَحْرُوم رہ جانے پر انہیں اتنا دُکھ ہوتا تھا۔دوسری طرف ہمارا حالِ بےحال ہے،


 

 



[1]... قیمۃ الزمن عند العلماء، نماذج رائعۃ من المحافظۃ...الخ، صفحہ:104۔