Book Name:Shan e Iman e Siddique

اس بارے میں کون سوچے...!! *مسلمانوں کے گھر پیدا ہوئے تھے* 20 سال، 30 سال، کسی کو 40، 50یا 60 سال بھی ہو چکے دُنیا میں آئے ہوئے*جب بالغ ہوئے تھے، اس وقت ایمانی کیفیات جو تھیں، اب بھی وہی ہیں* عِشْقِ رسول کی جو کیفیت اس وقت تھی، اب بھی وہی ہے*قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے ہوئے، اس وقت بھی رونا نہیں آتا تھا، اب بھی نہیں آتا، بلکہ اس سے زیادہ دُکھ اورافسوس کی بات تو یہ ہے کہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی بھی ہے جس کو قرآنِ کریم دیکھ کربھی پڑھنا نہیں آتا  * عذاب کی آیات پڑھ کر دِل خوفِ خُدا میں اس وقت بھی نہیں تڑپتا تھا، اب بھی نہیں تڑپتا* نماز میں دِل 20 سال پہلے بھی نہیں لگتا تھا، اب بھی نہیں لگتا...!! آہ! کاش! ہمیں اپنے اِیْمَان کی فِکْر نصیب ہو جائے*دُنیا کی سب سے بڑی دولت یہی ایمان ہی تو ہے *اسی دولت ِ ایمان کے ذریعے تو جنّت ملے گی*جنّتی محلات نصیب ہوں گے *جنّت کی نعمتیں نصیب ہوں گی*جنّت میں آقا، مدینے والے مصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلیہ وَآلہٖ و َسَلَّم کا پڑوس نصیب ہوگا *اس دولت یعنی ایمان کو پختہ کرنے*ایمانی کیفیات کو بڑھانے کی کوئی فِکْر ہی نہیں ہے، شاید ایک بھاری تعداد ہو گی، جنہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا  کہ ایمان کی کیفیات میں بھی اِضَافہ ہونا چاہئے بلکہ ہو سکتا ہے کئی ایک نے تو آج ہی سُنا ہو کہ یہ بھی کوئی کام ہے۔

جی ہاں! یہ بھی ایک کام ہے بلکہ اہم ترین کام ہے، ہم مؤمن ہیں، ایمان ہمارا سرمایۂ حیات ہے، اس ایمان کی ترقی، ایمانی کیفیات کی ترقی کی بھی ہم نے ہی فِکْر کرنی ہے۔

اِیْمَان کے تقاضوں پر عَمَل کیجئے!

ایمان کے کئی ایک شعبےہوتے ہیں، جو احادیث میں بیان ہوئے ہیں، مُحَدِّثینِ کرام نے