Book Name:Maut Ka Akhri Qasid

ہے ، دوست اَحباب سے جُدا ہوکر مٹی کو اپنا ٹھکانا بنا لیتا ہے ، حساب وکتاب کا سامنا کرتا ہے،  اُسی کا محتاج ہوتا ہے جو اِس نے آگے بھیجا ہوتا ہے اور جوکچھ وہ پیچھے چھوڑ جاتا ہے اس سے بے نیاز ہوتا ہے ۔ پھر حضرت عمر بن عبد العزیز رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ آنکھوں پر کپڑا رکھ کر رونے لگے اور منبر(Podium) سے نیچے اُتر آئے۔([1])

مکان کی تعمیر رُکْوا  دی

اے عاشقانِ رسول! یہ حقیقت ہے، ہمیں وِراثت میں ملنے والا مال سامانِ عیش و عشرت نہیں، باعِثِ عِبْرت و نصیحت ہے۔ آج جوان اَوْلاد والِد کے مرنے کے بعد مالِ وراثت (Inheritance)کے لئے لڑ پڑتی ہے، بھائیوں کے جھگڑے ہوتے ہیں اور جب مالِ وراثت ملتا ہے تو دِل میں خوشیاں جاگتی ہیں، عیش و عشرت کا سامان کیا جاتا ہے مگر آہ! جیسے والِد صاحِب اپنی زِندگی کی کمائی، ساری دولت، جائیداد(Property)، گاڑی بنگلہ وغیرہ سب کچھ چھوڑ کر قبر کے گڑھے(Pit of Grave) میں جا پہنچے، ایسے ہی وُرَثا بھی ایک دِن سب کچھ یہیں چھوڑ کر موت کی نیند سو جائیں گے، انہیں بھی منوں مٹی تلے دفن کر دیا جائے گا۔شُعَبُ الْاِیْمَان میں ہے: ایک نوجوان تھا، اسے وراثت میں ایک گھر ملا، اس نے گھر کو دوبارہ سے مضبوط بنانے کا ارادہ(Intention) کیا، چنانچہ گھر گِرا دیا گیا، نئے سرے سے تعمیر(Construction) کا کام شروع ہو گیا،  اسی دوران اُس کے والِد یا دادا جان اس کے خواب میں آئے اور کہا:

وضاحت: تجھے لمبا عرصہ جینے کی خواہش ہے مگر تُو نے دیکھا کہ اس گھر کے رہائشی اب قبرستان


 

 



[1]... حلیۃ الاولیاء،جلد:5 ،صفحہ:300 ،رقم:7193 ملتقطًا۔