Book Name:Al Madad Ya Ghous e Pak
بعض لوگوں کے دِل میں وسوسہ آتا ہے کہ جو اَوْلیائے کرام رَحمۃُ اللہ علیہم ، نیک لوگ زندہ ہیں ، ان سے تو مدد مانگ لی جائے مگر جو وفات پا گئے ، آخِر اُن سے مدد کیسے مانگ سکتے ہیں؟ اس وسوسے کا سادہ سا جواب ہے کہ بیشک اَوْلیائے کرام رَحمۃُ اللہ علیہم دُنیا سے پردہ فرماتے ہیں ، ان کی رُوح قبض کی جاتی ہے ، ان پر موت طارِی ہوتی ہے مگر اللہ پاک کی عطا سے ، اس کے فضل و کرم سے اَوْلیائے کرام رَحمۃُ اللہ علیہم اپنے مزارات (Shrines) میں زندہ ہوتے ہیں ۔ اللہ پاک قرآنِ کریم میں فرماتا ہے:
وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌؕ-بَلْ اَحْیَآءٌ وَّ لٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ(۱۵۴) (پارہ:2 ، البقرۃ؛154) ترجمہ کنزُ العِرفان:اور جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں ۔
اس آیتِ کریمہ میں صاف صاف فرما دیا گیا کہ جو اللہ پاک کے رستے میں شہید ہو جائیں ، انہیں مُردہ نہ کہو ، وہ زندہ ہیں ، تم ان کی زندگی (Life) کا شُعُور نہیں رکھتے ، اب یہ آیتِ کریمہ واضِح طور پر شہید کی زندگی کو ثابِت کر رہی ہے مگر سُوال ہے: شہید کون؟ وہ جو غیر مسلموں سے جنگ کرتے ہوئے شہادت پا جائے؟ نہیں...!!صِرْف وہ نہیں بلکہ شہید اور بھی بہت سارے ہیں ۔ مسندِ امام احمد بن حنبل میں حدیثِ پاک ہے ، تاجدارِ کائنات ، مکی مَدَنی سردار صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم نے فرمایا: اِنَّ اَکْثَرَ شُہَدَاءِ اُمَّتِی لَاَصْحَابُ الْفُرُشِ یعنی میری اُمت کے زیادہ تَر شہید وہ ہیں ، جنہیں بستر پر موت آتی ہے ، وَ رُبَّ قَتِیْلٍ بَیْنَ الصَفَّیْنِ اللہ اَعْلَمُ بِنِیَّتِہٖ یعنی ورنہ کتنے دورانِ جنگ مرنے والے ایسے ہیں کہ ان کی نیت بس