$header_html

Book Name:Islam Me Aurat Ka Maqam

وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِالْاُنْثٰى ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا وَّ هُوَ كَظِیْمٌۚ(۵۸) یَتَوَارٰى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْٓءِ مَا بُشِّرَ بِهٖؕ-اَیُمْسِكُهٗ عَلٰى هُوْنٍ اَمْ یَدُسُّهٗ فِی التُّرَابِؕ-اَلَا سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ(۵۹)                 

ترجَمۂ کنز العرفان : اور جب ان میں کسی کو بیٹی ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو دن بھر اس کا منہ کالا رہتا ہے اور وہ غصہ سے بھرا ہوتا ہے  اس بشارت کی برائی کے سبب لوگوں سے چھپا پھرتا ہے کیا اسے ذلت کے ساتھ رکھے گا یا اسے مٹی میں دبا دے گا؟خبردار! یہ کتنا بُرا فیصلہ کر رہے ہیں

لیکن اس پتھر دل مُعاشَرے میں ایسے رحم دل لوگ بھی موجود تھے کہ جو بچیوں کی بے کسی پر خون کے آنسو بہاتے اور جہاں تک ممکن ہوتا بچیوں کو زندہ دفن ہونے سے بچانے کی کوششیں کرتے ، مثلاً امیرُالمؤمنین حضرت  فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ  عَنْہُ کے چچا زاد بھائی اور حضرت  سعید بن زید رَضِیَ اللہُ  عَنْہُ کے والد زید بن عَمْرو بن نُفَیل کو جب پتہ چلتا کہ فُلاں کے ہاں لڑکی پیدا ہوئی ہے اور وہ اس کو زندہ دفن کرنا چاہتا ہے تو دوڑ کر اس کے پاس جاتے او راس بچی کی پرورش اور اس کی شادی وغیرہ کے اخراجات(Expenses) کی ذِمّہ داری اُٹھاتے اور اس طرح اس ننھی  کلی کو کھلنے سے پہلے مَسَل دئیے جانے سے بچا لیتے۔

حضرت  صَعْصَعَہ بن ناجیہ رَضِیَ اللہُ  عَنْہُ کا بھی یہی معمول تھا ، چنانچہ آپ نے عرض کی : یارسولَ اللہصَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ !میں نے زَمانۂ جاہلیت میں360 بچیوں کو زندہ دفن ہونے سے بچایا اور ہر ایک کے بدلے دو دو(2 ، 2) دس (10) ما ہ والی حاملہ اُونٹنیاں اور ایک ایک اُونٹ بطورِ فدیہ ان کے باپوں کو دیا ، کیا مجھے اس عمل کا کوئی اجر ملے گا؟تو سرکارِ دو عالم ، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : اس عمل کا اجر تو تمہیں مل گیا ، اللہ  پاک  نے تمہیں اسلام لانے کی توفیق مرحمت فرمائی اور نعمتِ ایمان سے سرفراز کردیا۔ (معجم کبیر ، ۸ / ۷۷ ، حدیث : ۷۴۱۲)


 

 



$footer_html