Book Name:Husn-e-Zan Ki Barkaten
محمد الیاس عطار قادِری دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ سے جُوٹھا کھانا لے کر کھایا ، اُنہی سے دَم بھی کروایا ، بس اُن کے حسنِ ظن نے کام کر دکھایا ، رَحمتِ اِلہٰی کو جوش آیا ، اللہ پاک نے ان کو شِفا یاب فرمایا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ اُن کا فالج کا مرض جاتا رہا ۔ اُنہوں نے ہزاروں اسلامی بھائیوں کی موجودگی میں فیضانِ مدینہ کے مَنچ پر چڑھ کر بَصَد عقیدت اپنے رُوبہ صِحّت ہونے کی بِشارت سُنائی ، یہ نویدِ جانفِزا سُن کر فَضاء “ اللہ ، اللہ ، اللہ ، اللہ “ کی پُر کیف صداؤں سے گونج اُٹھی۔ اُن دنوں کئی مقامی اَخبارات نے اِس خبرِ فرحت اثر کو شائِع کیا۔
صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد
پیارے پیارے اسلامی بھائیو!چُونکہ ہمیں یہ نہیں معلوم کہ کون شَخْص اللہ پاک کا ولی اوراس كا مُقرَّب بنده ہے ، اس لیے ہمیں ہر ایک مُسَلمان بھائی کے جُوٹھے کی قدر کرنی چاہیے۔ مگر افسوس! ہمارے مُعاشَرےمیں رائج ہوجانے والی دیگر کئی خلافِ شرع رَسْموں کی طرح بچے ہوئے کھانے ومشروبات کو ضائع کرنے کا رُجحان بڑھنے کے ساتھ ساتھ مَعَاذَ اللہ فیشن بنتا چلا جارہا ہے۔ ہرطرف کھانے کی بے حُرمتی کے دِلسوز نَظّارے ہیں ، گھریلو فنکشنز(تقریبات)ہوں یابُزرگانِ دین کی نیاز کے تَبرُّ کات ، سَماجی مَحافل ہوں یا شادی کی تقریبات ، ہرطرف کھانے کو ضائع کرنے کے افسوس ناک مَناظر ہیں ، تھالوں میں بچا ہوا تھوڑا سا کھانا ، پِیالوں اور پتیلوں ، دیگوں میں بچا ہوا شوربا ، پلیٹ میں بچ جانے والا سالن اور روٹی کے بچ جانے والے قابلِ استعمال کنارے اورٹکڑے دوبارہ استِعمال کرنے کااکثر لوگوں کاذِہْن نہیں ہوتا ، اِس طرح بَہُت سارا بچا ہوا کھانا ، عُمُوما ًکچرا کُونڈی (Dust Bin) کی نذر کر دیا جاتا ہے ۔ حالانکہ یہ اِسْراف(یعنی کسی چیز کا ضائع کرنا) ہے ، لہٰذااب تک جتنا بھی اِسراف کِیا ہے ، اس سے توبہ کیجئے اور آئندہ کھانے کے ایک دانے یا شوربےکے ایک قطرے کا بھی اِسْراف نہ ہو اس کا عہد