Book Name:Ala Hazrat Ka Andaz e Safar

کے ساتھ وہاں تشریف لے جایا کرتے تھے۔ الحمد للہ!عاشقانِ رسول ، عاشقانِ اولیاء ، عاشقانِ غوث رضا کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے تحت جو مدنی قافلے سَفَر کرتے ہیں ، اُس میں بھی یہ ترکیب کی جاتی ہے کہ عاشقانِ رسول کا مدنی قافلہ جس شہر میں پہنچے ، امیر قافلہ کی اطاعت کرتے ہوئے اور مدنی قافلے کے جدول کا لحاظ رکھ کر اس شہر کے عاشقانِ رسول عُلَمائے کرام جو حیات ہیں ، ان  کی خدمت میں حاضِری دی جائے اور وہ بزرگانِ دین جو دُنیا سے تشریف لے جا چُکے ، ان کے مزار پر حاضِری کی بھی دِی جائے ، الحمد للہ! کَثِیْر عاشقانِ رسول اس سَعَادت سے مُشَرَّف ہوتے رہتے ہیں۔

پیارے اسلامی بھائیو! سیدی اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی ایمان افروز حکایت جو ابھی ہم نے سُنی ، اس سے ایک اَوْر بھی مدنی پھول سیکھنے کو مِلا ،  وہ یہ کہ سیدی اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے بیسل پُور کے لوگوں کو اُن گمنام بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے لئے مزار شریف بنانے کا حکم ارشاد فرمایا۔ پتا چلا!اَوْلیائے کرام ، نیک بزرگانِ دین کی قبر مبارک پر گنبد اورمزار بنانا چاہئے تاکہ لوگوں کے دِل اُن کی طرف راغِب ہوں اور لوگ اُن سے فیض حاصِل کرسکیں ، ہاں! عام مسلمان جن کی بطور ولئُ اللہ پہنچان نہیں ہے ، اُن کی قبر پر مزار بنانا دُرُست نہیں بلکہ ایسوں کی قبریں یُوں ہی کچی رکھی جائیں تاکہ اَوْلیائے کرام کے مزارات اور عام مسلمانوں کی قبر میں فرق ہو سکے۔ چنانچہ فتاویٰ رضویہ شریف میں ہے : عُلَمائے کرام نے اَہْلِ فَضْل اَوْلیاء و عُلَماء کی قبروں پر عِمَارت بنانا جائِز قرار دیا ہے تاکہ لوگ اِن کی زیارت کریں۔ نیز فتاویٰ رضویہ شریف میں ایک مقام پر یُوں بھی بیان ہے کہ ایسے شخص (یعنی جو وَلیُ اللہ نہیں ہے ، اس ) کی قبر کو وَلی کا مزار ٹھہرانا اَوْر لوگوں کو وہاں مراد مانگنے کی