Book Name:Ala Hazrat Ka Andaz e Safar

عرفان علی صاحب کا بیان ہے کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا اندر دو لوگ  آپس میں گفتگو  فرما رہے ہیں ، اس دوران ایک وَلِیُ اللہ نے دوسرے وَلِیُ اللہ سے ملاقات کی اور کیا کیا راز کی باتیں ہوئیں کسی کو معلوم نہیں ، ہاں! جب سرکارِاعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ باہَر تشریف لائے تو چہر پر جلال روشن تھا ، بارُعب آواز میں فرمایا : بیسل پُور والو! تم اب تک تاریکی میں تھے ، یہ اللہ پاک کے زبردست وَلِیُ اللہ ہیں ، غازیانِ اسلام سے ہیں ، سہروردی سلسلے کے ہیں ، قبیلہ انصار سے ہیں ، غازی کمال شاہ ان کا نام ہے ، انہوں نے شادِی نہیں کی تھی ، تم لوگوں کا فرض ہے کہ ان سے کَسْبِ فیض (یعنی فیض حاصِل) کرتے رہو اور ان کے مزار شریف کو عمدہ طور پر تعمیر کرو۔ بَس! اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا یہ فرمانا تھا کہ اسی وقت سے لوگوں کا ہجوم ہونے لگا اور آپ کی بارگاہ سے لوگ فیض حاصِل کرنے لگے ، اب وہ جنگل نما خطہ تھوڑے ہی دِنوں میں گلزار بن گیا۔ ([1])

سُبْحٰنَ اللہ! اللہ پاک نے سیدی اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی مبارک زبان میں کیسی تاثیر رکھی تھی...!! پیارے اسلامی بھائیو! اس حکایت سے سیدی اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہکا اَوْلیائے کرام کے ساتھ ، ان کے مزارات کے ساتھ دِلی لگاؤ معلوم ہوا ، ساتھ ہی یہ بھی پتا چلا کہ اللہ پاک کے نیک برگزیدہ بندوں ، اللہ پاک کے اَولیاء کے مزارات پر حاضِرہونا بزرگانِ دِین کا طریقہ ہے ، دیکھئے! سیدی اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ خود بہت بڑے عالِم ، حافِظ ، مُحَدِّث ، مُفَسِّر اور مفتی ہیں ، بہت بڑے ولئ کامِل ہیں ، آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ جس شہر میں تشریف لے جاتے ، اگر وہاں کسی بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا مزار ہوتا تو پُورے اہتمام


 

 



[1]...تجلیات امام احمد رضا ، صفحہ : 99-100۔