Book Name:Ala Hazrat Ka Andaz e Safar

سے ایک اَدَب یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ “ دورانِ سَفَر جس شہر میں پہنچیں ، وہاں اَوْلیائے کرام کے مزارات ہوں تو برکت کے لئے وہاں حاضِری بھی دِی جائے ، اس شہر میں عُلَمائے کرام ، مشائِخ موجود ہوں تو اُن کی خدمت میں حاضِر ہو کر ان سے فیض بھی لیا جائے۔ “ ([1])

سرکارِ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے دورانِ سَفَر کے معمولات میں یہ اَدب بھی شامِل تھا ، آپ جہاں تشریف لے جاتے اگر وہاں کوئی مزار شریف ہوتا تو لازمی وہاں تشریف لے جاتے اور وَلِیُ اللہ کے لئے فاتحہ خوانی کیا کرتے تھے۔

چنانچہ قائِدِاَہْلسنت ، حضرت عَلَّامہ ، اَرْشدُ القادری صاحب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ لکھتے ہیں : غالباً 1320 ہجری میں حضور اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیسل پُور حضرت مولانا عرفان علی صاحب  کے گھر تشریف لائے۔ یہاں پہنچ کر اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے مولانا عرفان علی صاحب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے پوچھا : کیا اس بستی میں کسی وَلِیُ اللہ کا مزار شریف ہے؟ انہوں نے عرض کیا : حُضُور! یہاں تو کسی مشہور ولی کا مزار میری نظر میں نہیں ہے۔  اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا : مجھے تو وَلِیُ اللہ کی خوشبو آرہی ہے۔ میں ان کے مزار پر فاتحہ پڑھنے جاؤں گا۔ اس پر مولانا عرفان علی صاحب نے عرض کیا : حُضُور! اس بستی کے کنارے پر ایک قبر ہے ، جنگلی علاقہ ہے ، ایک کوٹھڑی بنی ہوئی ہے ، اسی کے اندر وہ قبر ہے۔

یہ سنتے ہی اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا : چلئے۔ چنانچہ آپ اس گمنام مزار پر تشریف لے گئے اور اس کوٹھڑی کے اندر جا کر دروازہ بند کر لیا ، تقریباً پَون گھنٹے تک اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اندر ہی رہے۔ سینکڑوں کا مجمع تھا ، وہاں موجود لوگوں بالخصوص مولانا


 

 



[1]...کیمیائے سعادت ، صفحہ : 343۔