Book Name:imam Ghazali Ki Taleemat

کبھی گُنَاہ نہ کرنے کا پکا وعدہ کرے اور نیکیوں والی نئی زِندگی گزارنے کا عزم باندھ لے۔ قضا نمازیں ، روزے ، مالی حقوق ذِمّے پر ہوں تو ادا کرے ، کسی کو تکلیف پہنچائی ہو تو مُعَاف کروا لے ، اب بندہ گُنَاہوں سے پاک ہو گیا ، اب عِبَادت کے راستے پر چلنے کے لئے تیار ہے۔ ([1]) مگر اب اس کے سامنے 4 بڑی رکاوٹیں کھڑی ہوتی ہیں :

پہلی رکاوٹ : دُنیا؛ مثلاً خیالات آتے ہیں : *میں عبادت کرنے لگا تو کیرئیر پلاننگ کا کیا بنے گا؟ *میرے خواب کیسے پورے ہوں گے ، *میں بڑا آدمی بننا چاہتا ہوں ، میں فلاں عہدے پر پہنچنا چاہتا ہوں ، یہ  سب کیسے ہو سکے گا؟ *داڑھی رکھ لی ، عمامہ سجا لیا ، مسجد میں جانے لگا تو مُعَاشرے میں میری ویلیو(Value) کیا رہے گی ، میرا نِکاح کیسے ہو سکے گا وغیرہ۔

امام غزالی  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  فرماتے ہیں : ان سب کا علاج یہ ہے کہ  دُنیا کی بجائے آخرت کو ترجیح دی جائے۔ امیر المؤمنین مولاعلی  رَضِیَ اللہُ عَنْہ  فرماتے ہیں : دُنیا جا رہی ہے ، آخرت آرہی ہے ، ان دونوں کے چاہنے والے ہیں ، لوگو! دُنیا والے نہ بنو! آخرت والے بنو   ! آج عمل کا وقت ہے ، حساب نہیں ، کل حساب کا دِن ہو گا ، عمل نہ کر پاؤ گے۔([2])

دوسری رُکاوٹ : لوگوں سے میل جول : عِبَادت کے رستے پر آنا ہے تو یقیناً عِبَادت کو وقت دینا پڑے گا لیکن پھر ہوٹلنگ کا کیا ہو گا؟ پکنک پارٹیوں کا کیا بنے گا؟ دوستوں کے ساتھ گپ شپ لگانی ہے ، سیر پر جانا ہے ، سوشل میڈیا کی کئی کئی گھنٹے کی مصروفیت کا کیا بنے گا؟ بُرے دوستوں سے جان کیسے چُھوٹے گی وغیرہ وغیرہ خیالات دِل کو پکڑ لیتے اور عبادت سے روکنے لگتے ہیں ، اس کا عِلاج یہی ہے کہ لوگوں سے تعلقات کم کر دئیے جائیں کہ جو دوست یا رشتہ دار عِبَادت کی راہ میں رُکاوٹ ہو وہ اَصْل میں دوست نہیں بلکہ دُشمن ہے۔ قیامت کو


 

 



[1]   منہاج العابدین ،دوسرا باب، توبہ کے بیان میں، صفحہ:73ماخوذًا۔

[2]   بخاری، کِتَابُ الرِّقَاق، صفحہ:1581۔