Book Name:Safai Ki Ahamiyyat

صفائی ستھرائی کے معاملے میں سُستی کا شکار ہے۔ جن کا لباس ، بستر ، جُوتے موزے ، چپل ، رومال ، عمامہ ، چادر ، کنگھی ، سواری الغرض ہر وہ چیز جو ان کے استعمال میں ہوتی ہے ، وہ بزبانِ حال چیخ چیخ  کر پکار رہی ہوتی ہے کہ مجھے صاف کیا جائے۔ بہرحال  اگر انسان خود صاف ستھرا اور اس کے آس پاس کا ماحول بھی صفائی والا ہو تو یہ اس کے بدن اور اس کی سوچ کے صحّت مند بننے میں بڑا مددگار ثابت ہوسکتا ہے ، جب بدن اورسوچ صحّت منداور دُرست ہوں تو آدمی دِین و دنیا کے بےشمار کام عمدگی (خوبی) کے ساتھ بجالا سکتاہے۔ جب وہ عبادت کرے گا تو اس میں بھی اس کو لذّت آئے گی اور خُشوع و خُضوع حاصل ہوگا ، یونہی جب آدمی کا ظاہر صاف ہوتا ہے تو اس کا اَثَر اس کے باطن پر بھی پڑتا ہے کیونکہ ان دونوں کا آپس میں تعلق ہوتا ہے ، نیز آدمی غور کرے کہ صاف ستھرا شخص اسے کتنا  پسند آتا ہے ، ایسے شخص  کے ساتھ رہنا ، اس کے قریب بیٹھنا کس قدر  اچّھا لگتا ہے ، پھر طبیعتوں کا بھی میلان ہوتا ہے ، صاف ستھرا آدمی صاف ستھرے لوگوں میں بیٹھتا ہے جیساکہ مثال بیان کی جاتی ہے کہ اَلْجِنْسُ یَمِیْلُ اِلٰی جِنْسِہٖ یعنی ہر جنس اپنی جنس کی طرف مائل ہوتی ہےچنانچہ

کوّے اور کبوتر کی دوستی

ایک مرتبہ  کوّے اور کبوتر میں دوستی ہوگئی ، ایک شخص نے جب یہ دیکھا تو سوچا کہ کبوتر اور کوّے کا کیا ملاپ!یہ دونوں تو الگ الگ ہیں ، آخر کبوتر اور کوّے کی ایک دوسرے کے ساتھ دوستی کیسے ہوگئی؟چنانچہ اس نے غور کیا تو پتا چلا کہ کبوتر بھی لنگڑا تھا اور کوّا بھی ، دونوں کو ان کی ایک جیسی صفت نے دوست بنا دیا۔