Book Name:Aaqa Ki Ummat Se Muhabbat

سُبْحٰنَ اللہ!ذرا سوچئے!حضورِ انور ، شافِعِ محشر   صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کو ہم سے کتنی محبت ہے کہ جو منبر ان کے لیے سجایا  جائے گا ، اس پر جلوہ فرما نہیں  ہوں گے بلکہ اپنے اُمّتیوں کے لیے پریشان  اور انہیں مصیبتوں سے نجات دلا کر جنت میں داخل فرمارہے  ہوں گے ۔ آپ کا معاملہ  یہ ہو گاکہ  ہماری ایک پکا رپر فورا ً ہماری مدد فرمائیں گے  لیکن دوسری طرف آج ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم ان کے فرمان پر عمل کرنے سے جی چُرا رہے ہیں۔

تری وحشتوں سے اے دل مجھے کیوں نہ عار آئے

توا نہیں سے دور بھاگے جنہیں تجھ پہ پیار آئے[1]

ہمارے آقا  مکی مدنی مصطفیٰ  صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  توہمیں قریبی رشتہ داروں سے صلۂ رحمی کا حکم فرمائیں ، مگر ہمارا عمل  یہ ہے کہ ہم تعلقات بڑھانے کے بجائےچھوٹی چھوٹی باتوں پرتعلقات توڑدیتےہیں۔ *ہمارے آقا تو یہ فرمائیں کہ  جو تم سے توڑے تم ان سے جوڑو ، جو تم سے برائی سے پیش آئے تم اس سے بھلائی سے پیش آؤ  مگر ہمارا عمل اس کے اُلٹ ہے۔ *ہمارے آقا   صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  تو پڑوسیوں کے اس قدر حقوق بیان فرمائیں کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہکو شک ہونے لگے کہ پڑوسیوں کو کہیں وراثت میں حصے دار نہ ٹھہرا دیا جائے۔ جبکہ ہمارا طرزِ عمل یہ  ہوکہ ہمیں پڑوسیوں کی خبر ہی  نہ ہو۔ *ہمارے آقا   صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  تو نماز کے بارے میں فرمایا کہ نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ، مگر ہماری عملی حالت اِس قدرخراب ہوچکی ہے کہ


 

 



[1]     ذوقِ نعت ، ص۲۴۲