Book Name:Walidain e Mustafa

سب آپ  کی پیروی کریں گے اور یہی طریقہ رائج ہو جائے گا۔ ([1]) حضرت عَبْدُ الْـمُطَّلِب  رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے پُر جوش لہجے میں فرمایا :

اللہ جس کی حمد جیسی کسی کی حمد نہیں ، اس کی قسم! میں اپنے ربِّ کریم سے کیا وعدہ ضرور پورا کروں گا۔ وہ میرا مولیٰ ، میں اس کا بندہ اور میں نے اس کے لئے منت مانی ہے تو میں اس کا خِلاف کرنا پسند نہیں کرتا۔ اگر ایسا کروں تو مجھے زِندگی سے کوئی پیار نہیں۔ ([2])

سردارانِ قریش اورحضور کے داداحضرت عَبْدُ الْـمُطَّلِب رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے درمیان کافی بحث ہوتی رہی ، بالآخر عرب کی ایک مُعَبِّر عورت سے فیصلہ کرانا طے پایا ، یہ اُس وَقْت خیبر میں تھی ، اس نے پورا واقعہ سُن کر ایک دِن کی مہلت مانگی ، اگلے روز کہا : تمہارے ہاں دیت یعنی جان کا فدیہ کتنا ہے؟ بتایا گیا : دَس اونٹ۔ بولی : مکہ لوٹ جاؤ اور  حضرتِ عبداللہ اور دس اُونٹوں کے درمیان قرعہ ڈالو ، اگرحضرت عبداللہ کا نام نکلے تو اُونٹوں کی تعداد بڑھا دو ، جب تک قرعہ اندازی میں اُونٹوں کا نام نہ نکل آئے ،  اونٹوں کی تعداد بڑھاتے رہو ، جب اُونٹوں کا نام نکلے سمجھ لو کہ عبداللہ کے فدیے میں اتنے اُونٹوں کی قربانی پر تمہارا ربّ راضِی ہے۔ اس پر سب کا اتفاق ہوا۔ مَکَّہ مُکَرَّمَہ آکر قرعہ اندازی شروع ہوئی ، پہلے دَس ، پھر بیس ، پھر تیس اُونٹوں پر قرعہ ڈالا گیا ، ہر دفعہ حضرت عبداللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کا نام آیا ، کرتے کرتے 100 اُونٹوں پر پہنچے تو اُونٹوں کا نام نکلا ، قریش بولے : بَس! اے عَبْدُ الْـمُطَّلِب ! آپ کا ربّ سو اُونٹوں


 

 



[1]   شرح الزرقانى على المواهب ، المقصد الاول...الخ ، ذكر حفر زمزم...الخ ، ١٧٧-١٧٨ملخصًا.

[2]   سيرت ابن اسحاق ، نذر عبد المطلب ، ص١٢.