Book Name:Bemari kay Faiday
حضرت ابنِ مسعود رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرماتے ہیں ، حضورِ پاک صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : مومن پر تَعَجُّب ہے کہ وہ بیماری سے ڈرتا ہے ، اگر وہ جان لیتا کہ بیماری میں اُس کے لئے کیا ہے؟ تو ساری زندگی بیمار رہنا پسند کرتا۔ پھر نبیِّ کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنا سر آسمان کی طرف اُٹھا یا اور مسکرانےلگے۔ عرض کی گئی ، یارسولَاللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ!آپ آسمان کی طرف سر اُٹھا کر کیوں مسکرائے ؟ارشاد فرمایا : میں دو (2) فرشتوں پر حیران ہوں کہ وہ دونوں ایک بندے کو ایک مسجد میں تلاش کررہے تھے ، جس میں وہ نماز پڑھا کرتا تھا ، جب انہوں نے اسے نہ پایا تو واپس چلے گئے اور عرض کی ، اےربِّ کریم! ہم تیرے فُلاں بندے کے دن اور رات میں کئے ہوئے اعمال لکھتے تھے ، پھر ہم نے دیکھاکہ تونے اُسے آزمائش میں مُبْتَلا فرمادیا۔ تو اللہ پاک فرماتا ہے : میرا بندہ دن اور رات میں جو عمل کیا کرتاتھا ، اس کے لئے وہ عمل لکھو اور اس کے اجر میں کمی نہ کرو ، جب تک وہ میری طرف سے آزمائش میں ہے ، اس کا ثواب میرے ذِمّۂ کرم پرہے اور جو اعمال وہ کیا کرتا تھا ، اس کے لئے ان کا بھی ثواب ہے۔ (معجم اوسط ، ۲ / ۱۱ ، حديث : ۲۳۱۷)
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمّد
اےعاشقانِ رسول!بیان کردہ حدیثِ پاک سے ہمیں چند باتیں معلوم ہوئیں :
(1)پہلی بات یہ معلوم ہوئی کہ بات کرتے ہوئے مسکرانا سنت ہے۔ (مکارِمُ الاخلاق ، ص۳۱۹ ، رقم : ۲۱)مسکرا کر ملنا ، مسکرا کر کسی کو سمجھانا عُمومًا نیکی کی دعوت کے مدنی کام کو نہایت آسان بنا دیتا اور