Book Name:Tahammul Mizaji ki Fazilat

سچا چرواہا

                             حضرت نافع رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ  فرماتے ہیں : حضرت عبدُاللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا اپنےکچھ  ساتھیوں  کے ساتھ ایک سفر میں  تھے ، راستے میں  ایک جگہ ٹھہرے اور کھانے کے لیے دسترخوان بچھایا ، اتنے میں  ایک چرواہا(یعنی بکریاں  چرانے والا)وہاں  آگیا۔ حضرت عبدُاللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے فرمایا : آئیے! دسترخوان سے کچھ لے لیجئے ، اس نے عرض کی : میرا روزہ ہے ، حضرت عبدُاللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ  نے فرمایا : کیا تم اس سخت گرمی کے دن میں(نفل) روزہ رکھے ہوئے ہو جبکہ تم ان پہاڑوں  میں  بکریاں چرا رہے ہو؟ اُس نے کہا : اللہ پاک کی قسم! میں یہ اس لیے کر رہا ہوں  کہ زندگی کے گزرے ہوئے دنوں  کا بدلہ ادا کر لوں۔ حضرت عبدُاللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے اُس کی پرہیزگاری کا امتحان لینے کے ارادے سے فرمایا : کیا تم اپنی بکریوں  میں  سے ایک بکری ہمیں  بیچو گے؟اس کی قیمت اور گوشت بھی تمہیں  دیں  گے تاکہ تم اس سے روزہ اِفطار کرسکو ، اُس نے جواب دیا : یہ بکریاں  میری نہیں  ہیں ، میرے مالک کی ہیں۔ حضرت عبدُاللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے آزمانے کے لیے فرمایا : مالک سے کہہ دینا کہ بھیڑیا (Wolf)ان میں  سے ایک کو لے گیا ہے ، غلام نے کہا : تو پھر اللہ  پاک کہاں  ہے؟(یعنی اللہ پاک  تو دیکھ رہا ہے ، وہ تو حقیقت کو جانتا ہے اور اس پر میری پکڑ فرمائے گا۔ )جب حضرت عبدُاللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ مدینے واپس تشریف لائے تو اُس کے مالِک سے غلام اورساری بکریاں خرید لیں ، پھر چرواہے کو آزاد کردیا اور بکریاں  بھی اسے تحفے میں  دے دیں۔ (شُعَبُ  لْاِیمان ، ۴ / ۳۲۹ ، حدیث : ۵۲۹۱مُلَخَّصاً ، ازجھوٹاچور ، ص۱۶بتغیر)

صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب!                                           صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد

اللہ  والے کون؟

                             پیاری پیاری اسلامی بہنو!بیان کردہ حکایت سے معلوم ہوا!*اللہ  والے وُہی ہوتے