Book Name:Tahammul Mizaji ki Fazilat
کی جائے۔ *بدزبانی اور بے حیائی کی با تو ں سے ہر وقت پرہیز کیجئے ، گالی گلوچ سے بچتے رہئے اور یادرکھئے!کسی مسلمان کو بِلا اجازتِ شرعی گالی دینا حرام ِقطعی ہے۔ ([1])بے حیائی کی بات کرنے والے پر جنّت حرام ہے۔ حُضور تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا : اس شخص پر جنّت حرام ہے جو بے حیائی کی بات سے کام لیتا ہے۔ ([2]) *فرمانِ مصطفٰے صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ : جوچُپ رہا اُس نےنجات پائی۔ ( ترْمِذِی ، ۴ / ۲۲۵ ، حدیث : ۲۵۰۹)*دورانِ گفتگو قَہْقَہَہ لگانے سے بچئے ، رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےکبھیقَہْقَہَہ نہیں لگایا ، زیادہ باتیں کرنے اور بار بارقَہْقَہَہ لگانے سے ڈرجاتا رہتا ہے۔ *سرکارِمدینہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَکافرمان عالیشان ہے : جب تم کسی بندے کو دیکھو کہ اسے دنیا سے بے رغبتی اور کم بولنے کی نعمت عطا کی گئی ہے تو اس کی قُربت وصحبت اختیار کرو کیونکہ اسے حکمت دی جاتی ہے۔ (ابن ماجہ ، ۴ / ۴۲۲ ، حدیث : ۴۱۰۱)*حضرت امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ فرماتےہیں : گفتگوکی چار(4)قسمیں ہیں : (1)مکمَّل طور پر نقصان دینے والی بات۔ (2)مکمل فائدہ دینے والی بات۔ (3)ایسی بات جونقصان دینے والی بھی اور فائدہ دینے والی بھی۔ (4)ایسی بات جس میں نہ فائدہ ہو نہ ہی نقصان۔ مکمَّل نقصان دینے والی بات سے ہمیشہ پرہیز ضروری ہے ، مکمل فائدہ دینے والی بات ضرور کیجئے ، جو بات نقصان دینے والی بھی ہواور فائدہ دینے والی بھی اس کے بولنے میں احتیاط کرے ، بہتر ہے کہ نہ بولے اور چوتھی قسم کے کلام میں وقت ضائع کرنا ہے۔ ان کلاموں میں فرق کرنا مشکل ہے لہٰذا خاموشی بہتر ہے۔ (اِحیاءالْعُلوم ۳ / ۱۳۸ملخصاً)