Book Name:Siddiq K Liay Khuda Aur Rasool Bus

انہیں اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے بغیر کسی تَرَدُّدْ(شک و شُبہ) ، بغیر کسی  غوروفکر اور بغیر کسی سوچ و بچار کے فورًا کلمہ پڑھ لیااور اسلام میں داخل ہو گئے۔     (تاریخ مدینہ دمشق ، ۳۰ / ۴۴)

                             پیارے پیارے اسلامی بھائیو!غورکیجئے! کہ اسلام کے ابتدائی دور میں جبکہ لوگ دعوتِ اسلام ملنے پر ایمان تو کیا لاتے الٹا دشمن ہو جاتے۔ طرح طرح کی سازشیں کرتے ، دین کو نقصان پہنچانے کی سَرتوڑ کوشش کرتے ، اگر کوئی ایمان لاتا تو اس کے دشمن ہوجاتے ، اور اگر کوئی ایمان لانے والا ہوتا بھی تو خوب سوچتا ، غور و فکر کرتا ، سوالات کرتا ، دل کا اطمینان کرتا ، معجزات دیکھتا ، تسلی کرتا اور پھر جا کر اسلام لاتا۔ لیکن حضرت صدیقِ اکبر   رَضِیَ اللہ عَنْہ   کی شان یہ ہے کہ انہیں جیسے ہی دعوتِ اسلام ملتی ہے تو نہ صرف یہ کہ ایمان لے آتے ہیں بلکہ سب سے پہلے  محافظِ اسلام بھی بن جاتے ہیں۔ اور ان کے ایمان کی مضبوطی ایسی ہے کہ انہیں دیکھ کر ، سن کر ، پڑھ کر ، کئی لوگوں کا ایمان مضبوط ہوجاتا ہے۔ اور ان کے ایمان کی مضبوطی کے بارے میں مدینے والے آقا ، میٹھے مصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فرماتے ہیں : اگر ایک پلڑے میں میری ساری اُمّت کا ایمان رکھ دیا جائے اور دوسرے پلڑے میں  صرف ابو بکر کا ایمان رکھ  کر وزن کیا جائے تو ابوبکر کے ایمان والا پلڑا بھاری  ہو جائے گا۔  (شعب الایمان ، باب القول فی زیادۃ  الایمان ۔ ۔ ۔ ا لخ  ، ۱  / ۶۹ ،  حدیث : ۳۶ بالفاظ مختلفۃ)جب ایسی شان ہو توپھر کہنا پڑے گا :

پروانے کو چراغ ، بُلْبُل کو پھول بس