Book Name:Imam Malik Ka Ishq-e-Rasool

ہوئے ڈرائیورپراِنفرادی کوشش،اُس کو اورگانے باجے سُننے والے دیگر افراد کوگناہ سے بچا سکتی ہے،بسااوقات گاڑی کے اِنتظارمیں ویٹنگ رُوم میں یہی دِلسوزمناظرہوتے ہیں،اِس موقع پربھی متعلقہ افرادکونیکی کی دعوت دی جا سکتی ہے۔اس طرح کی اورکئی مثالیں ہیں جہاں نیکی کی دعوت دینے کے کئی مواقع ملتےہیں،نیکی کی دعوت دینے میں چونکہ ثواب بہت زِیادہ ہے،اس لیے شیطان اس کام میں وسوسے ڈال کرنیکی کے اس عظیم کام سے محروم کرنے کی کوشش کرتاہے،حالانکہ مسلمانوں کو سمجھانا فائدہ دیتا ہے،جی ہاں!پارہ 27سُوْرَۃُ الذّٰرِیٰتکی آیت نمبر 55میں اِرشادِ ربّانی ہے:

وَّ ذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ(۵۵) (پ۲۷،سُوْرَۃُ الذّٰرِیٰت :۵۵)         

تَرْجَمَۂ کنز العِرفان :اور سمجھاؤ  کہ سمجھانا  ایمان والوں  کو فائدہ دیتا ہے۔

اسی طرح  احادیثِ مبارَکہ میں بھی کثیر مقامات پر نیکی کی دعوت دینے اور بُرائی سے روکنےکی ترغیبیں موجود ہیں ،چنانچہ

رسولِ پاک صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عبرت نشان ہے:تم میں سے جب کو ئی کسی بُرائی کو دیکھے تو اُسے چاہیے کہ بُرائی کو اپنے ہاتھ سے بدل دے او ر جواپنے ہاتھ سے بدلنے کی قوت نہ رکھے، اُسے چاہیے کہ اپنی زَبان سے بدل دے اور جو اپنی زَبان سے بدلنے کی بھی طاقت نہ رکھے ،اُسے چاہیے کہ اپنے دل میں بُرا جانے اوریہ کمزورترین ایمان کی نشانی ہے۔(مسلم، کتاب الایمان، باب بیان کون النھی عن المنکر۔۔۔الخ، ص۴۸، حدیث:۱۷۷)

کیا ہم دل میں بُر ا جانتے ہیں ؟

اےعاشقانِ رسول!ہمیں اپنے ضمیر سے سُوال کرنا چاہئے کہ کسی کو گناہ کرتا دیکھ کر ہاتھ یا زبان سے روکنے میں خود کو بے بس پانے کی صورت میں کیاہم نے دل میں بُرا جانا؟صدکروڑ افسوس!