Book Name:Imam Malik Ka Ishq-e-Rasool

بچّوں کی امّی کھانا پکانے میں تاخیر کردیں،کھانے میں نمک تیز ہوجائے،بیٹا اسکول کی چُھٹّی کر لے تو ضَرور ناگوار گزرتا ہے لیکن گھر والوں کی روزانہ پانچوں نمازیں قَضا ہورہی ہوں تو ماتھے پر بَل تک نہیں آتا،انہیں سمجھانے کی کوشِش تک نہیں کی جاتی۔ذرا سوچئے! میوزِک بج رہا ہے،بے شک روکنے پر قُدرت نہیں مگر کیا یہ ہمارے دل میں کھٹکتا ہے؟کیا ہم اِسے بُر ا محسوس کر رہے ہیں؟شاید نہیں،اِس لئے کہ خود اپنے موبائل میں بھی تو مَعَاذَاللہ’’میوزیکل ٹیون(Musical tune)‘‘موجود ہے!۔دو افراد گلی میں گالَم گلوچ کر رہے ہیں،بُرا لگا ؟جی نہیں،کیوں؟اِس لئے کہ کبھی کبھی اپنے منہ سے بھی مَعَاذَاللہ گالی نکل ہی جاتی ہے۔فُلاں نے جھوٹ بولا،کیاہمیں ناگوار گزرا؟ جی نہیں،کیوں؟ اس لئے کہ خود اپنی زبان سے بھی مَعَاذَاللہ جھوٹ نکل ہی جاتا ہے۔یہ مثالیں صِرف چوٹ کرنے کیلئے ہیں،ورنہ بَہُت ساروں کی حالت یہ ہے کہ اپنے فون میں میوزیکل ٹیون نہیں۔گالی اور جھوٹ کی عادت نہیں،پھر بھی’’دل میں بُرا جاننے ‘‘کا ذہن نہیں۔اگر رضائے الٰہی کیلئے حقیقی معنوں میں بُرائی کو دل میں بُرا جاننے کی سوچ بن جائے،کڑھنے کی عادت پڑ جائے تب تو مُعاشَرے میں اِصلاح کا دَور دَورہ ہو جائے کیوں کہ جب ہم بُرائیوں کو دل سے بُرا سمجھنے میں خود پکّے ہو جائیں گے،تو دوسروں کو سمجھانا بھی شروع کر دیں گے،یوں ہر طرف سُنّتوں کی بہاریں آ جائیں گی اور’’نیکی کی دعوت ‘‘کی دھوم مچ جائے گی۔اللہ پاک ہمارے حال پر رَحم فرمائے اور ہمیں عقلِ سلیم دے کہ ہم بھی خوب خوب نیکی کی دعوت اور آقا کریمصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سنَّت کی دھوم مچانے والے بن جائیں۔

بیان کردہ حکایت سے معلوم ہوا کہ عالِمِ مدینہ حضرت امام مالکرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ روضَۂ رسول کی طرف رُخ کرکے دُعا کرنے کو نہ صرف جائز سمجھتے بلکہ اس کی تاکید بھی فرمایا کرتے تھے۔چونکہ آپ