Book Name:Aala Hazrat Ki Shayri Aur Ishq-e-Rasool

(حدائقِ بخشش ، ص۲۰۵)

اس  شعرمیں قرآنِ پاک کی اس آیت ِ مبارکہ کی طرف اشارہ ہے:

وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا (۶۴) (پ٥،النساء:۶۴)

ترجمۂ کنز الایمان :اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضروراللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔

اِسی طرح سیدی اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ایک اور جگہ فرماتے ہیں:

رَبّ ہے مُعْطِی، یہ ہیں قاسم                                           رِزْق اُس کا ہے، کھِلاتے یہ ہیں

(الاستمداد،ص۶)

اس میں اس حدیثِ پاک کی طرف اشارہ ہے جس میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے  ارشاد فرمایا: اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَاﷲُ الْمُعْطِی یعنی دینے والا اللہ ہے اور بانٹنے والا میں۔(بخاری، کتاب الاعتصام، باب قول النبی لاتزال طائفۃ،۴/۵۱۱، حدیث: ۷۳۱۱)

اس سے معلوم ہوتاہے کہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا کلام قرآن و حدیث کا آئینہ دار ہے اور اس میں بھی شک نہیں کہ اعلیٰ حضرترَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی لکھی ہوئی ایک ایک نعت فنِ شاعری میں بھی درجۂ کمال پر ہے اور عشقِ رسول کی نئی نئی جہتوں سے بھی آگاہ کرتی ہے۔ جس طرح اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے جسم کا رُواں  رُواں سرکارِ دوعالم، نورِ مجسم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی محبت سے لبریز تھا،اسی طرح آپ کی نعتیہ شاعری کا ہر ہر لفظ  بھی عشقِ رسول میں ڈُوبا ہوانظرا ٓتا ہے۔ آپ کا عشقِ رسول اس درجۂ کمال پر تھا کہ آج سو سال گزرنے کے باوجود بھی اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے لکھے ہوئے