Book Name:Aala Hazrat Ki Shayri Aur Ishq-e-Rasool

شعر کی وضاحت:اے بہار جُھوم جا کہ تجھ پر بہاروں کی بہار آنے والی ہے۔وہ دیکھ! مدینے کے تاجدار صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَسُوئے لالہ زار یعنی جانِب گُلزار تشریف لا رہے ہیں۔

مَقْطَع (یعنی آخر ی شعر جس میں شاعر کا تَخَلُّص آتا ہے)میں بارگاہِ رسالت میں اپنی عاجِزی اور مسکینی کا نقشہ  کچھ یوں کھینچا ہے کہ،

کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضاؔ

تجھ سے شَیْدا ہزار پھرتے ہیں

(حدائقِ بخشش،ص۱۰۰)

اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے مِصْرَعِ ثانی (دوسرےمِصْرَع)میں بطورِ عاجزی اپنے لئے ”کُتّے“  کا لفظ اِستعمال فرمایا ہے، مگر اَدَباً یہاں ”شَیْدا“لکھا ہے(جس کا مطلب ہے عاشق)۔

شعر کی وضاحت:اِس مَقْطَع میں عاشِقِ ماہِ رِسالت،سرکارِ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کمال انکساری کا اِظہار کرتے ہوئے اپنے آپ سے فرماتے ہیں:اے احمد رضا!تُو کیا اور تیری حقیقت کیا!تجھ جیسے تو ہزاروں سگانِ مدینہ (یعنی مدینے کے کُتّے) گلیوں میں دیوانہ وارپھر رہے ہیں۔

یہ غزل عَرْض کرکے دِیدار کے اِنتظار میں مُؤدَّب(یعنی بااَدَب)بیٹھے ہوئے تھے کہ قسمت انگڑائی لیکر جاگ اُٹھی اور چشمانِ سر(یعنی سر کی آنکھوں ) سے بیداری میں زیارتِ محبوبِ باری سے مُشرَّف ہوئے۔([1])

            پىارے پىارے اسلامى بھائىو!یقیناً اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سچے عاشقِ رسول تھے،  بلکہ عاشقانِ رسول کے قافلے کے سپاہ سالار تھے، اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ساری زندگی عشقِ رسول کے جام پلاتے رہے، اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ساری زندگی عشقِ رسول کو فروغ دیتے رہے، اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ


 

 



[1]تذکرۂ امام احمد رضا،ص۱۱ تا ۱۲ملخصاً