Book Name:Dukhyari Ummat Ki Khairkhuwahi

اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ لوگوں کی دینی تربیت اور ان کی اصلاح کے بارے میں کیسی کوشش فرماتے تھے۔ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ خلیفَۂ وَقْت اور بے حد مصروفیات کےباوجود اپنی مجلس میں آنے والے ایک  ایک فردکی غیر حاضری کو فوراً  محسوس کرکے اسے نظر انداز نہیں کرتے تھے بلکہ اس کے بارے میں پوچھ گچھ فرمایا کرتےتاکہ اگراس کےساتھ کوئی مسئلہ(Problem)پیش آگیا ہوتو اسےحل کرکے خیرخواہی کا ثواب حاصل کریں ۔ بالفرض اگر وہ بیمار ہوگیاہےتو اس کا علاج کرائیں تاکہ وہ تندرست ہوجائے۔ کسی پریشانی میں مُبْتَلا ہے تو اس کی پریشانی دور کریں۔ مگرآہ!آج ہماری حالت تو یہ ہے کہ ایک تعداد ہے جو غیرتو کیا اپنے سگے بھائیوں تک کی کوئی خیر خبر نہیں لیتے۔ ہمارے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے والے ، آفس میں کام کرنے والے دوستوں یا خادمین وغیرہ میں سے کوئی غیر حاضر ہوجائے تو ہمیں معلوم ہی نہیں ہوتاکہ وہ کہاں ہے اور کیوں نہیں آ رہا؟اور نہ ہی ہم کوشش کرتےہیں کہ اس کی کوئی خیریت معلوم کرلیں کہ کہیں اس بےچارےکےساتھ کوئی آزمائشی معاملہ تونہیں آگیا؟کہیں وہ بیمار تو نہیں ہوگیا؟کاش!ہم بھی سیرتِ فاروقی پر عمل اورمسلمانوں کی خیرخواہی کرنے والے بن جائیں۔ اگرہمارےساتھ رہنےوالا ، ساتھ  کام کرنے والا ، ساتھ نمازیں پڑھنے والا ، نیکی کی دعوت دینے والا ، علاقائی دورہ میں شرکت کرنے والا ، درس و بیان سننے والا ، مَدَنی مذاکرے کی پابندی کرنے والا ، ہفتہ وار سُنّتوں بھرے اجتماع میں آنےوالا الغرض کوئی بھی اسلامی بھائی کسی دن نہ آسکےتو اس کے گھر جاکر یا کم ازکم فون کرکےہی اس کی خیریت تو پوچھ ہی لیا کریں۔ آئیے!اس بارے میں اَمِیرِ اہلسنّت حضرت علّامہ مَولانا محمد الیاس عطّار قادِری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہکے معمولات کے بارے میں سنتے ہیں ، چنانچہ

اَمیر ِاہلسنتدَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ اور اُمّت  کی خیر خواہی

       امیرِاَہلسنّت دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ مسلمانوں کے ساتھ خیرخواہی فرماتےرہتے ہیں۔ آپ دَامَتْ