Book Name:Mout Ka Zaeqa

والد ِ محترم رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ  کا وقتِ وِصال قریب آیاتومیں نے عرض کی: ”اے بابا جان (رَضِیَ اللہُ عَنْہُ)! آپ توایسے ایسے فرمایا کرتے تھے۔“ تو اُنہوں نے ارشادفرمایا : اے میرے بیٹے! موت اس سے زِیادہ سَخْت ہے کہ اس کو بیان کیا جائے، پھر بھی میں کچھ بیان کئے دیتاہوں۔ اللہپاک کی قسم! گویا میرے کندھوں پررَضْوٰی(ایک مشہور پہاڑ) اور تِہامہ کے پہاڑ رکھ دیئے گئے ہیں اور گویامیری رُوْح سُوئی کے ناکے سے نکالی جارہی ہے ،گویا میرے پیٹ میں ایک کانٹے دار ٹہنی ہے اور آسمان ،زمین سے مل گیا ہے اور میں ان دونوں کے دَرْمیان ہوں۔(المستدرک،کتاب معرفة الصحابة، باب وصف الموت فی حالة  النزع،۵/۵۶۹،حدیث۵۹۶۹)

موت ایسے جیسے زندہ چڑیا کو بھوننا

       منقول ہے کہ حضرتِ سیِّدُناموسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام  سے اللہکریم نے پوچھا کہ موت کو کیسا پایا تو آپ عَلَیْہِ السَّلَامنے جواب دیا: موت اس چڑیا کی مانند ہےجسے زندہ کڑاہی میں بھونا جار ہا ہو، اب نہ تو وہ  مرے کہ راحت پائے اور نہ نجات پائے کہ اُڑ جائے۔(احیاء علوم الدین،کتاب الذکروالموت ومابعدھا،باب ثالث فی سکرات الموت۔۔۔ الخ ، ۵/۲۱۰)

موت کی شِدّت

            ایک بُزرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہکے بارے میں آتاہے کہ وہ بیماروں کی عِیادَت بہت زِیادَہ کیا کرتے اور پوچھتے:تم موت کوکیساپاتے ہو؟جب ان کا آخری وَقْت آیاتو کسی نے پُوچھا:آپ موت کو کیساپاتے ہیں؟ فرمایا: گویا آسمانوں کو زمین سے مِلادِیاگیاہےاور میری رُوح سُوئی برابر سُوراخ سے نکل رہی ہے۔(احیاء العلوم، ۵/۵۱۷)

یاالٰہی بُھول جاؤں نَزع کی تکلیف کو