Book Name:Ilm-e-Deen Kay Fazail

پیارے پیارے اسلامی بھائیو!افسوس!اب ہمارے دلوں سے عِلْمِ دِین  کی قدر ختم ہوتی جارہی ہے، ہمارے معاشرے کی اکثریت نہ تو خود عِلْمِ دِین  سیکھنے کی طرف راغب ہوتی ہےاور نہ ہی اپنی اولادکوعِلْمِ دِین سکھاتی ہے۔اپنے بچوں کے روشن مستقبل کیلئے خوب دُنیوی عُلوم و فُنون تو سکھائے جاتے ہیں مگردِینی تعلیم دلواکر اپنی اور اپنے بچوں کی آخرت  بہتر بنانے کی طرف توجہ نہیں کی جاتی۔ بچہ اگر ذہین ہوتو اسے ڈاکٹر،انجینئر،پروفیسر،کمپیوٹر پروگرامر بنانے کی خواہشیں  انگڑائی لینے لگتی ہیں،اگر وہ ذہنی طور پر کمزور،شرارتی یا معذور ہوتو جان چھڑانے کے لئے اسے کسی دارُالعُلوم، جامعہ یا مدرسے میں داخل کروادیا جاتا ہے۔جبکہ ہمارے بزرگانِ دین رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ  عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن بچپن ہی سے اپنی اولاد کو عِلْمِ دِین سکھاتے یہاں تک کہ بڑے بڑے بادشاہ بھی اپنی اولادکو عِلْمِ دِیْن کے زیور سےآراستہ کرتےکیونکہ وہ خود عِلْم وعُلَما کی قدر کرنے والے ہوتے ہیں، جیساکہ

 خلیفۂ ہارون رشید بہت نیک اور عِلْم کی قدر جاننے والے بادشاہ تھے۔ایک بار(اپنے بیٹے) مامون رشید کی تعلیم کے لئے حضرت امام کِسائی(رَحْمَۃُ اللّٰہ ِعَلَیْہ)سے عرض کی تو آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے فرمایا: میں یہاں پڑھانے نہ آؤں گا،شہزادہ میرے ہی مکان پر آجایا کرے۔ہارون رشید نے عرض کی:وہ وہیں حاضر ہوجایا کرے گا مگر اس کا سبق پہلے ہوجائے۔فرمایا:یہ بھی نہ ہوگا بلکہ جو پہلے آئے گا اس کا سبق پہلے ہوگا۔بہرحال مامون رشید نے پڑھنا شروع کیا،اتفاق سے ایک روزخلیفۂ ہارون رشید گزرے،دیکھا کہ امام کِسائی(رَحْمَۃُ اللّٰہ ِعَلَیْہ )اپنے پاؤں دھو رہے ہیں اوران کا بیٹامامون رشید پانی ڈال رہا ہے۔ بادشاہ غضب ناک ہوکر  گھوڑے سے اُترے اور مامون رشید کو کوڑا مارکرکہا:بے ادب! خدا نے دوہاتھ کس لئے دئیےہیں؟ایک ہاتھ سے پانی ڈال اور دوسرے ہاتھ سے اِن کا پاؤں دھو۔