Book Name:Ilm-e-Deen Kay Fazail

چومتے، ان کی خدمت کرتے اور ان کی جوتیاں اُٹھانے کو سعادت سمجھتے نظر آتے ہیں حالانکہ یہ مقام و مرتبہ دُنیا کے کسی بڑے سے بڑے مالدار کو بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔آئیے!اس ضمن میں ایک واقعہ سنئے،چنانچہ

عِلْم کی عزت کرنے والا بادشاہ

منقول ہے:ایک مرتبہ خلیفۂ ہارون رشید نے حضرت ابُو معاویہ عزیز رَحْمَۃُ اللّٰہ ِعَلَیْہ کی دعوت کی، وہ آنکھوں سے معذور تھے،کھانے کے وَقْت جب ہاتھ دھونے کیلئے  لوٹااور ہاتھ منہ دھونے کا برتن لایا گیا تو(خلیفۂ ہارون رشید نے )برتن خدمت گار کو دیا،خود لوٹا لے کرحضرت  ابو معاویہ عزیز رَحْمَۃُ اللّٰہ ِعَلَیْہ کے ہاتھ دُھلائے اور کہا:کیاآپ جانتے ہیں کہ کون آپ کے ہاتھوں پر پانی ڈال رہا ہے؟“فرمایا:” نہیں۔“بادشاہ نے عرض کی:”ہارون“(تو حضرت ابومعاویہ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِعَلَیْہ نےانہیں دُعا دیتے ہوئے)کہا: جیسی آپ نے عِلْم کی عزت کی،ایسی اللہ پاک آپ کی عزت کرے۔ہارون رشید نے کہا:اسی دعا کو حاصل کرنے کے لئے  میں نے یہ سب  کیا تھا۔(ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت، ص ۱۴۵ملخصاً)

امامِ اعظم رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کی نگاہِ بصیرت

            اِسی طرح حضرت سَیِّدُناقاضی ابویوسف یعقوب بن ابراہیم رَحْمَۃُ اللّٰہ ِعَلَیْہ  کے بارے میں منقول ہے کہ بچپن میں  آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کے سر سے والد کا سایہ اُٹھ گیاتھا،والدہ نے گھرچلانے کے لیے انہیں ایک دھوبی کے پاس بٹھا دیا،ایک بار یہ حضرت سَیِّدُنا امامِ اعظم رَحْمَۃُ اللّٰہ ِعَلَیْہکی مجلس میں جا پہنچے، وہاں کی باتیں انہیں اس قدر پسند آئیں کہ یہ دھوبی کو چھوڑ کر وہیں بیٹھنا شروع ہوگئے۔ والدہ کو جب پتا چلتا وہ انہیں اُٹھاتیں اور دھوبی کے پاس لے جاتیں، جب معاملہ بڑھا تو ان کی والدہ نے حضرت سَیِّدُنا