Book Name:Hmesha Sach Bolye

سکتی ہے جیسا کہ فرمانِ مصطفے ٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمہے:اِنسان کی اکثر خطائیں اس کی زَبان سے ہوتی ہیں۔(شعب الایمان،باب فی حفظ اللسان،۴ /۲۴۰، حدیث:۴۹۳۳ )

لہٰذا عقل مند وہی ہے جو زبان کا اچھا استعمال  کرےاور اسے بُرے استعمال سے بچائے،اپنی زبان کو فضول گوئی سے بچائے،کسی کو گالی دینے سے بچائے،کسی کی دِل آزاری سے بچائے۔ زبان کا اچھا استعمال کتنا فائدہ مند جبکہ اس کا بُرا ستعمال کتنا نقصان دہ ہوسکتا ہے، آئیے اس بارے میں ایک دلچسپ فرضی حکایت سنتے ہیں:

دو بوڑھی پڑوسنوں کی کہانی

دو بوڑھی عورتیں آپس میں پڑوسن (Neighbour)تھیں، ایک زبان کی بڑی اچھی تھی جبکہ دوسری بڑی بدزبان تھی۔ وہ بڑھیا جو زبان کی  بڑی اچھی تھی ،ایک دن جنگل میں  ایک درخت کے نیچے بیٹھی تھی ۔ اتفاق سے گرمی، سردی اور برسات کے موسموں میں جھگڑا ہو گیا، سردی کہتی تھی کہ میں سب موسموں میں اچھی ہوں، گرمی کا دعویٰ تھا کہ تمام موسموں میں میرا کوئی جواب نہیں، جبکہ برسات کے موسم کا کہنا تھا کہ مجھ سے اچھا کوئی اور موسم نہیں ہے۔ آپس میں انہوں نے طے کیا  کہ کسی انسان سے فیصلہ کرواتے ہیں۔ یہ تینوں اس جنگل میں چلے تو سامنے وہی بڑھیا بیٹھی نظر آئی، تینوں نے اتفاق کر لیا کہ اسی سے پوچھ لیتے ہیں۔  سب سے پہلے موسم سرما اس بوڑھیا کے پاس آیا اور کہنے لگا: بڑی بی یہ بتاؤ کہ موسمِ سرما کیسا ہوتا ہے؟ بڑھیا کہنے لگی: موسمِ سرما کا کیا کہنا، جب آتا ہے تو ہر طرف رونق آجاتی ہے، کہیں برف کی سفید چادریں چھا جاتی ہیں،گھروں میں انگیٹھیاں (Stoves)سُلگنے لگتی ہیں، گرما گرم چائے اور کافی کے مزے ہوتے ہیں، طرح طرح کے میوے لائے جاتے ہیں، اخروٹ اور مونگ پھلیاں