Book Name:Hmesha Sach Bolye

اُٹھ کر کہنے لگا:اے اَمیر!میرا تم پر ایک حق ہے ۔ حَجَّاج نے پُوچھا:وہ کیا؟کہنے لگا: ایک دن فُلاں شَخْص تمہیں بُرا بَھلا کہہ رہا تھا،تو میں نے تمہارا دِفاع(یعنی بچاؤ) کِیا تھا۔ حَجَّاج بولا :اِس کا گواہ کون ہے؟اُس شَخْص نے کہا:میں اللہ کا واسِطہ دےکرکہتا ہوں کہ جس نے وہ گُفْتُگو سُنی تھی وہ گَواہی دے۔ایک دوسرے قَیدی نے اُٹھ کر کہا:ہاں!یہ واقِعہ میر ے سامنے پیش آیا تھا۔ حَجَّاج نے کہا: پہلے قَیدی کو رِہا کردو،پھر گواہی دینے والے سے پوچھا:تجھے کیا رُکاوٹ تھی کہ تُونے اُس قَیدی کی طرح میرا دِفاع(یعنی بچاؤ)نہ کِیا؟ اُس نے سچّائی سے کام لیتے ہوئے کہا : ’’رُکاوٹ یہ تھی کہ میرے دل میں تمہاری پُرانی دُشمنی تھی۔‘‘ حَجَّاج نے کہا:اسے بھی رِہا کردو، کیونکہ اس نے بڑی ہِمّت کے ساتھ سچ بولا ہے۔(وَفیات الاَعْیان لابن خلکان:۲/۲۸،ازجھوٹا چور،ص:۱۹)

       پىارے پىارے اسلامى بھائىو!واقعی سچ ہے کہ ”سانچ کو آنچ نہیں“ یعنی  سچ بولنے والا کبھی نقصان میں نہیں رہتا، اس لیے سچ کو اپنی عادت بنانی چاہیے۔ سچ بولنے سے نہ صرف دنیا بہتر ہوتی ہے بلکہ آخرت میں بھی فائدہ ہوتا ہے۔  سچ بولنے کی عادت آخرت کےلیے کتنی فائدہ مند ہے آئیے اس پر دو روایتیں سنتے ہیں:

سچائی کے سبب بلند درجات!

       حضرت سیِّدُنا بِشْر بِنْ بَکْر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ    فرماتے ہیں:میں نے حضرتِ سَیِّدُنا اِمام اوزاعی  رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو علمائے کرام  کے ایک گروہ کے ساتھ جنت میں دیکھ کر پوچھا: حضرتِ سیِّدُنا امام مالک بن اَنَس رَضِیَ اللہُ عَنْہ  کہاں ہیں ؟ کہا:ان کے درجات توبہت بلند ہیں۔میں نے پوچھا: کس سبب سے ؟کہا :اُن کی سچائی کی بدولت۔(التمھید، باب ذکر عیون من اخبار مالک وذکر فضل موطئہ، ۱/۵۶)