Book Name:Hmesha Sach Bolye

میں  سے ایک کو لے گیا ہے،غلام نے کہا:تو پھر اللہ  پاک کہاں  ہے؟(یعنی اللہ  تو دیکھ رہا ہے، وہ تو حقیقت کو جانتا ہے اور اس پر میری پکڑ فرمائے گا)جب حضرت عبداللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ  مدینے واپس تشریف لائے تو اُس کے مالِک سے غلام اورساری بکریاں  خرید لیں،پھر چرواہے کو آزاد کردیا اور بکریاں  بھی اسے تحفے میں  دے دیں۔    (شُعَبُ الْاِیمان ،۴/۳۲۹،حدیث:۵۲۹۱  مُلَخَّصاً، از جھوٹا چور ص ۱۶بتغیر)

صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب!                                  صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد

      پىارے پىارے اسلامى بھائىو!اس حکایت سے ایک مدنی پھول یہ حاصل ہوا کہ ہر حال میں سچ بولنا چاہیے اور سچ ہی کو اپنی عادت بنانی چاہیے۔ بسا اوقات سچائی کی ایسی قوت اور برکت ظاہر ہوتی ہے کہ عقل حیران ہو جاتی ہے جیسا کہ ابھی ہم نے سنا۔لہٰذا عقل مندی یہی ہے کہ سچوں کی پیروی کی جائے اور سچ بولنے کی ہی عادت بنائی جائے۔آئیے!نعرہ لگا کر اپنے عزم کا اِظہارکرتے ہیں!

جھوٹ کے خلاف جنگ۔۔۔۔۔جاری رہے گی

نہ جھوٹ بولیں گے نہ بُلوائیں گے۔۔۔۔۔اِنْ شَآءَ اللہ

اللہ  والے کون؟

       پىارے پىارے اسلامى بھائىو!اس نیک اور سچے چرواہے کے کردار سے یہ بھی سبق ملتا ہے کہ ٭اللہ  والے وُہی ہوتے ہیں جو ہمیشہ سچ بولتے ہیں۔  ٭اللہ  والے وُہی ہوتے ہیں جو ہمیشہ خوفِ خدا میں ڈُوبے رہتے ہیں۔ ٭اللہ  والے وُہی ہوتے ہیں جو شریعت کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔ ٭اللہ  والے وُہی ہوتے ہیں جو دِین کی پیروی کرتے ہیں۔ ٭اللہ  والے وُہی ہوتے ہیں جو علم و عمل کے جامع ہوتے ہیں۔ ٭اللہ  والے وُہی ہوتے ہیں جو تقویٰ و پرہیزگاری کا مَظہَر ہوتے ہیں۔